پسماندہ طبقات کے ساتھ ناانصافی کے لئے کانگریس سب سے زیادہ ذمہ دا
حکمران جماعت پر دوہرے معیار کا الزام۔راجیو گاندھی نے پارلیمنٹ میں مخالف بی سی ریزرویشن تقریر کی تھی
قومی سطح پر 27 فیصد تحفظات کے باوجود یو پی ایس سی میں صرف 8 فیصد مواقع
ملک میں بی سیز کی آبادی 50 فیصد۔دولت میں صرف 15 فیصد کی حصہ داری
*بی سی، ایس سی، ایس ٹی اور خواتین کو مکمل حقوق کی فراہمی کے بغیر ترقی ممکن نہیں*
بی سی کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے۔ سب پلان منظور کیا جائے۔ سالانہ 20 ہزار کروڑ روپئے مختص کئے جائیں
*مسائل کی یکسوئی کے لئے متحدہ جدوجہد ناگزیر۔کونسل میں بی آر ایس رکن کے کویتا کی تقریر*
حیدرآباد: رکن قانون ساز کونسل بی آر ایس کلواکنٹلہ کویتا نے بی سی ریزرویشن بل پر دوہرے معیار پر کانگریس پارٹی کوشدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ پسماندہ طبقات کے ساتھ ناانصافی کی سب سے بڑی ذمہ دار کانگریس پارٹی ہے۔وہ تلنگانہ قانون ساز کونسل میں بی سی ریزرویشن بل پر اظہار خیال کر رہی تھیں۔ رکن کونسل کویتا نے کہا کہ کانگریس پارٹی نے ہمیشہ بی سیز کو نظرانداز کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کانگریس حکومت نے 1953 میں قائم کردہ کالیلکر کمیشن کی رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا۔10 سال تک منڈل کمیشن رپورٹ کو نافذ نہیں کیا گیا،آخر کار یہ رپورٹ 1990 میں وی پی سنگھ کی حکومت میں نافذ کی گئی۔انہوں نے کہا کہ راجیو گاندھی نے پارلیمنٹ میں بی سی ریزرویشن کے خلاف تقریر کی تھی اور کہا تھاکہ ریزرویشن سے ملک تقسیم ہو جائے گا۔2011 میں یو پی اے حکومت نے 4300 کروڑ روپئے خرچ کر کے ایک رپورٹ تیار کروائی لیکن آج تک اسے منظرعام پر نہیں لایا گیا۔
کویتانے استفسار کیا کہ کانگریس پارٹی نے کاماریڈی ڈیکلریشن میں پسماندہ طبقات کو 42 فیصدریزرویشن دینے کا جو وعدہ کیا۔اس کی بنیاد کیا ہے؟اس سلسلہ میں حکومت کو وضاحت کرنی چاہئے۔ آخر42 فیصد ریزرویشن کا حساب کیسے لگایا گیا۔اب تک حکومت نے پسماندہ طبقات کے لئے علیحدہ زمرے کے تحت ریزرویشن کی تفصیلات پیش نہیں کیں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ جلد از جلد بی سی ریزرویشن کے لئے مختص فیصد کی مکمل تفصیلات فراہم کرے تاکہ کوئی قانونی پیچیدگی پیدا نہ ہو۔
کویتانے کہا کہ حکومت بی سی کمیونٹی کے لئے ایک بی سی سب پلان تشکیل دے اور ہر سال کم از کم 20,000 کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کرے۔ گزشتہ سال حکومت نے صرف 9200 کروڑ روپئے ہی مختص کئے،جو ناکافی ہے۔ایس سی اور ایس ٹیز کو ریزرویشن دیا گیا اگر اسی وقت بی سیزکو بھی مساوی مواقع دیئے جاتے تو آج ملک ترقی میں امریکہ سے آگے ہوتا۔ملک کی 50فیصد آبادی پسماندہ طبقات پر مشتمل ہے لیکن انہیں مواقع سے محروم رکھا جا رہا ہے جو کہ افسوسناک امر ہے۔کے کویتا نے کہا کہ بی سی، ایس سی، ایس ٹی اور خواتین کو مساوی مواقع ملنے سے ہی حقیقی آزادی ممکن ہے۔
پسماندہ طبقات کے ساتھ تاریخی ناانصافی ہو رہی ہے۔ قومی سطح پر 27 فیصد ریزرویشن کے باوجود یو پی ایس سی میں صرف 8 مواقع دیئے جا رہے ہیں۔ ملک کی 50 فیصد آبادی پسماندہ طبقات پر مشتمل ہے، لیکن ان کے پاس صرف 15فیصد دولت ہے۔یہ عدم مساوات کی واضح مثال ہے ۔بی سیز کے روایتی پیشے ختم ہو رہے ہیں اور حکومت انہیں معاشی طور پر مستحکم بنانے میں ناکام ہے۔
کویتانے کہا کہ پسماندہ طبقات کو آئینی تحفظ نہ ملنے کی وجہ سے وہ مسلسل پسماندگی کا شکار ہیں۔بی سی طبقات کو معاشی خودمختاری، اقتدار میں شمولیت اور سماجی عزت و وقار کے لئے متحد ہو کر جدوجہد کرنی ہوگی۔ سابقہ کے سی آر حکومت نے بی سیز کو اقامتی اسکولوں میں خصوصی کوٹہ مقرر کیا تھا،
لیکن کانگریس حکومت نے اسے لاگو نہیں کیاہے۔کویتانے کہا کہ حکومت بی سیز کی مردم شماری، زمروں کے مطابق ریزرویشن کی تفصیلات اور بی سی کمیشن کی رپورٹ کو فوری طور پرمنظرعام پر لائے۔پسماندہ طبقات کے لئے مخصوص ریزرویشن کی تفصیلات واضح نہ ہونے کی وجہ سے یہ قوانین قانونی پیچیدگیوں اور کشاکش کا شکار ہوسکتے ہیں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ بی سی سب پلان بنائے اور اس پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
کلواکنٹلہ کویتا نے کہا کہ بی سی طبقات کے حقوق کے لئے جدوجہد جاری رہے گی اور حکومت کو جلد از جلد بی سی ریزرویشن اور ان سے مربوط تمام رپورٹس کو عوام کے لئےجاری کرناچاہئے۔ بی سی، ایس سی، ایس ٹی اور خواتین کو مکمل حقوق دیئے بغیر ملک کی ترقی ممکن نہیں ہے۔