امریکا-ایران کشیدگی: حقائق، سیاست اور میڈیا کا کردار

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: امریکا اور ایران کے تعلقات کئی دہائیوں سے کشیدہ رہے ہیں۔ جوہری تنازع اس کشیدگی کا مرکزی نکتہ بن چکا ہے۔ حالیہ مہینوں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو مذاکرات اور معاہدے کی پیشکش کی، جس کے جواب میں اعلی ایرانی قیادت نے دھونس دھمکیوں کے سایے میں مذاکرات کو مسترد کردیا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی دباؤ یا بدمعاشی کے تحت مذاکرات نہیں کرے گا چنانچہ رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے بیان میں اس کی طرف اشارہ کیا۔

امریکا کا مؤقف اور دباؤ کی پالیسی

امریکا کا موقف یہ ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک خطرہ ہے اور اسے محدود کرنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے سے 2018 میں یکطرفہ طور پر دستبرداری اختیار کی اور ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کردیں۔ اس کے برعکس ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے آئی اے ای اے کے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور عالمی برادری کو یقین دلایا کہ وہ جوہری توانائی کو پرامن مقاصد کے لیے استعمال کررہا ہے اور پرامن جوہری توانائی اس کا حق ہے۔

ایران کے خلاف امریکی پابندیاں درحقیقت “زیادہ سے زیادہ دباؤ” کی پالیسی کا حصہ ہیں، جس کا مقصد ایران کی معیشت کو کمزور کرکے اسے اپنی شرائط پر لانا ہے۔ تاہم ایران نے اب تک اس دباؤ کے آگے جھکنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی خودمختاری کو یقینی بنانے پر تاکید کی ہے۔

ایران کا ردعمل اور خطے پر اثرات

ایران کا ردعمل نہ صرف امریکہ بلکہ پورے مشرق وسطی کے لیے اہم ہے۔ اگر ایران اور امریکا کے درمیان تنازع بڑھتا ہے تو اس کے اثرات خطے کے دیگر ممالک پر بھی پڑیں گے۔ اگر یہ تنازع مزید شدت اختیار کرے تو مشرق وسطی میں عدم استحکام بڑھے گا، جس کا اثر عالمی معیشت اور تیل کی قیمتوں پر بھی پڑسکتا ہے۔

ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا معاملہ عالمی میڈیا میں نمایاں رہا ہے۔ رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای اور دیگر سیاسی و دفاعی رہنماؤں کے بیانات عالمی ذرائع ابلاغ کی شہہ سرخیوں میں رہے ہیں۔ عالمی حالات اور واقعات پر تبصرہ کرنا میڈیا کا کام ہے حقائق پر مبنی تبصرہ ذمہ دار میڈیا کی پہچان ہے۔ ایرانی اعلیٰ حکام سے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے خطاب کے بعد کچھ اردو زبان ویب سائٹس اور ٹی وی چینلوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک غلط خبر پھیلائی کہ آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ ایران امریکی مطالبات تسلیم نہیں کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر نے امریکی میڈیا کو کوئی انٹرویو نہیں دیا۔ یہ غلط رپورٹنگ نہ صرف صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی ایک کوشش بھی ہے۔

میڈیا کی غیر ذمہ داری اور اس کے نتائج

صحافت کا بنیادی اصول غیر جانبداری اور سچائی ہے۔ میڈیا ہاؤسز کی جانب سے بغیر تحقیق کے خبریں شائع کرنے سے عوام میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ میڈیا کا کام سچائی کو سامنے لانا ہے خاص طور پر جب معاملہ بین الاقوامی نوعیت کا ہو تو صحافیوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معلومات کی تصدیق کے بعد ہی خبر شائع کریں۔

امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی امن اور استحکام کا معاملہ ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات ممکن ہیں، لیکن یہ دباؤ اور دھمکیوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ برابری کی سطح پر ہونے چاہئیں۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اس تنازع میں غیر جانبدار سفارتی کردار ادا کرے تاکہ مشرق وسطیٰ میں استحکام قائم ہوسکے۔

اس حوالے سے میڈیا کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا اور غیر مصدقہ اطلاعات پھیلانے سے گریز کرنا ہوگا۔ صحافت کا کام کسی فریق کے مؤقف کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا یا غلط معلومات پھیلانا نہیں بلکہ حقائق کو درست طریقے سے پیش کرنا ہے۔ اگر میڈیا اپنی ساکھ بحال رکھنا چاہتا ہے تو اسے تحقیق، غیر جانبداری اور پیشہ ورانہ اصولوں کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *