سوشل میڈیا پوسٹس پر مسلم خواتین کے نیم عریاں امیجس کی بھرمار۔ ہندو توا گروپوں کی کارستانی

نئی دہلی: کئی ہندو توا گروپس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے تیار کردہ مسلم خواتین کی نیم عریاں تصاویر، ویڈیوز اور پوسٹس کا سیلاب لادیا ہے، جس کا مقصد مسلم طبقہ کو نشانہ بنانا ہے۔

”دی کوئنٹ“ میں شائع ایک رپورٹ کے بموجب انسٹا گرام اور فیس بک کے سینکڑوں صفحات پر حجاب یا برقعہ پوش خواتین کو ہندو مردوں کے ساتھ بے تکلف اور قریبی حالت میں دکھایا گیا ہے۔

اس نیوز ویب سائٹ کے لیے آدتیہ مینن کی تحریر کردہ ایک رپورٹ کے بموجب انسٹا گرام پر اس طرح کے کم از کم 250 صفحات پائے گئے۔ ان میں سے کئی ایسے صفحات تھے جن میں مسلم خواتین کے نیم عریاں امیجس بنانے کے لیے مصنوعی ذہانت کے ٹولس کا استعمال کیا گیا تھا۔

صفحات اور اکاؤنٹس میں اپنے ناموں، پوسٹس اور ہیاش ٹیاگس پر اصطلاح ”حجابی“ استعمال کی جاتی ہے، جس کا مقصد اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر مسلمانوں کو اصل نشانہ بنانا ہے۔ نیم عریاں امیجس پوسٹ کرتے ہوئے یوزرس‘ مسلم خواتین کے تعلق سے فحش ریمارکس بھی کرتے ہیں۔ کئی اکاؤنٹس اور صفحات پر مسلم خواتین کے تعلق سے ایسے نازیبا اور فحش ریمارکس بھی کیے جاتے ہیں کہ ”مسلم خواتین جنسی طور پر مایوس اور ناآسودہ ہوتی ہیں اور وہ اسے چھپانے کے لیے برقعہ پہنتی ہیں“۔

رپورٹ کے بموجب ان امیجس میں ہندو مردوں کو خیالی طور پر قوی اور حاوی ہونے کے علاوہ دھمکانے کے موقف میں ظاہر کیا گیا ہے، جب کہ دوسری طرف مسلم خواتین کو اکثر ہار ماننے والی اور خوفزدہ حالت میں دکھایا گیا ہے۔ ان صفحات میں بار بار دہرائے جانے والا موضوع ذہن پر طاری وہ خیال ہے جس میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ بغیر ختنہ کا عضو تناسل بہتر ہوتا ہے۔

اس رپورٹ میں ایسے پچاس صفحات ہیں جس میں بغیر ختنہ کے عضو تناسل پر بات کی گئی ہے۔ ان صفحات میں نیم عریاں امیجس پوسٹ کیے گئے اور فحش اور بازاری تبصرے بھی کیے گئے، تاہم کئی صفحات میں ایسے پوسٹس اور تبصرے بھی کیے گئے جس میں کیاٹ فش اکاؤنٹس میں مسلم خواتین ہونے کے فرضی دعوؤں کے بارے میں شکایت کی گئی ہے۔ کئی صفحات میں شناخت کے ثبوت کے طور پر ویڈیو چیاٹس کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔

بعض صفحات میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ مسلم خواتین اور ہندو مردوں کے درمیان ”جنسی ملاقاتوں کی سہولت“ فراہم کرسکتے ہیں۔ ان صفحات میں وقفہ وقفہ سے مخصوص علاقوں میں بلاوے کے پوسٹس بھی ہوتے ہیں، جس میں بیشتر اُترپردیش اور مدھیہ پردیش کے شہروں کے ہوتے ہیں۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *