مہر خبررساں ایجنسی، دین و عقیدہ ڈیسک: اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا ہے۔ اللہ تعالی انسانوں کو اعلی اور بافضیلت مقام تک پہنچانا چاہتا ہے جس کے لئے ہر وہ چیز عطا کی ہے جو فضیلت کے اعلیٰ مقام تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔ قرآن کریم میں اس حوالے سے رہنما اصول بیان کیے گئے ہیں۔
قرآن کریم دین کی تفہیم کا سب سے پہلا اور بنیادی ذریعہ ہے، اس لیے اس کی تفسیر میں صرف الفاظ کے معانی پر اکتفا نہیں کیا جاتا لہذا ان کو سیکھنے اور سمجھنے کے لئے تفسیر اور توضیح کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کی تفسیر اور اس کو سمجھنے کی کوشش نبی اکرم (ص) کے زمانے سے آج تک جاری ہے۔ قرآن کی ابدیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہر دور میں اس کی تشریح اور وضاحت جاری رہے۔
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِینَ آمَنُوا الْیَهُودَ وَالَّذِینَ أَشْرَکُوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَیٰ ۚ ذَٰلِکَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیسِینَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا یَسْتَکْبِرُونَ (مائدہ،82)
(اے رسول) اہل ایمان کے ساتھ عداوت میں یہود اور مشرکین کو آپ پیش پیش پائیں گے اور ایمان والوں کے ساتھ دوستی میں انہیں قریب تر پائیں گے، جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں عالم اور درویش صفت لوگ ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔
یہ آیت مسلمانوں کے دشمنوں اور دوستوں کے درمیان ایک اہم تقابلی جائزہ پیش کرتی ہے۔ اس میں اللہ تعالی یہ واضح کررہا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے دو گروہ ہیں:
1. یہودی جو تاریخی طور پر انبیاء کی مخالفت کرتے رہے اور اسلام کے خلاف سازشوں میں ملوث رہے۔
2. مشرکین جو کھلم کھلا اسلام کے دشمن اور توحید کے مخالف رہے ہیں۔
اس کے برعکس قرآن فرماتا ہے کہ مسلمانوں سے سب سے زیادہ قربت رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ:
ان میں علمائے دین (قِسِّیسینَ) اور راہب (رُهْبَانًا) موجود ہیں جو دین کو سمجھتے ہیں۔ وہ حق کے سامنے تکبر نہیں کرتے اور سچائی کو قبول کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔
شانِ نزول
یہ آیت نجاشی، بادشاہ حبشہ اور اس کے ساتھی مسیحیوں کے اس حسن سلوک کے بارے میں نازل ہوئی جب جعفر بن ابی طالب علیہ السلام کی قیادت میں کچھ مسلمان حبشہ ہجرت کرگئے تھے۔ وہاں نجاشی اور اس کے درباری جب سورہ مریم کی آیات سن کر رو پڑے تو انہوں نے مسلمانوں کی حمایت کی اور انہیں مشرکین کے ظلم سے محفوظ رکھا۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس آیت کی وضاحت میں فرمایا کہ یہ وہ لوگ تھے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان کے زمانے میں تھے اور نبی اکرم (ص) کی آمد کے منتظر تھے۔
یہ آیت ہمیں پیغام دیتی ہے کہ حق کو قبول کرنے میں تکبر اور تعصب سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اہل کتاب میں سے وہی لوگ کامیاب ہوئے جو حق کے متلاشی تھے اور تعصب سے پاک تھے۔
پیغامات
1. یہودیوں کو مسلمانوں سے تاریخی اور گہری دشمنی ہے۔ لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَداوَةً … الْیَهُودَ
2. اسلام کے دشمنوں اور غیرمسلموں کے ساتھ ان کے رویے کے مطابق برتاؤ کرنا چاہیے۔ أَشَدَّ النَّاسِ عَداوَةً … أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً
3. دوست اور دشمن کو اچھی طرح سوچ سمجھ کر اور ان کی صفات اور باطنی خصوصیات کے ساتھ پہچاننا ضروری ہے۔ أَشَدَّ النَّاسِ عَداوَةً … أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً
4. معاشرے کے ارتقاء کے لیے تین بنیادی عناصر ضروری ہیں: علم، خوف خدا اور تکبر سے دوری۔
قِسِّیسِینَ وَ رُهْباناً وَ أَنَّهُمْ لا یَسْتَکْبِرُونَ
5. علمائے دین اور خوف خدا رکھنے والے عبادت گزار افراد معاشرے میں اعتقادی اور اخلاقی اصلاح میں مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ ذلِکَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیسِینَ وَ رُهْباناً وَ أَنَّهُمْ لا یَسْتَکْبِرُونَ
6. اگر علم، عبادت، اور اخلاق ایک ساتھ ہوں تو انسان حق کی طرف مائل ہوتا ہے اور تعصب چھوڑ دیتا ہے۔ ذلِکَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیسِینَ وَ رُهْباناً وَ أَنَّهُمْ لا یَسْتَکْبِرُونَ
7. اسلام غیر ضروری تعصب کو مسترد کرتا ہے اور دوسرے مذاہب کے خدا ترس اور منصف علما کی تعریف کرتا ہے۔ ذلِکَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیسِینَ وَ رُهْباناً وَ أَنَّهُمْ لا یَسْتَکْبِرُونَ
8. مسیحیوں کے درمیان اسلام کی تبلیغ زیادہ مؤثر ہے، کیونکہ وہ زیادہ منصف مزاج ہوتے ہیں۔
أَنَّهُمْ لا یَسْتَکْبِرُونَ اگرچہ مسیحی تثلیث کا انحرافی عقیدہ رکھتے ہیں تاہم ان میں حق کو قبول کرنے کا جذبہ بھی زیادہ ہے۔