مسلم پرسنل لاء بورڈ کے مخالف وقف احتجاج کا جواب دیا جائے گا، ہندوتوا تنظیم کا اعلان

نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) کی جانب سے 10 مارچ کو پارلیمنٹ کے قریب مشہور مقام جنتر منتر پر وقف ترمیمی بل کے خلاف بڑا احتجاجی مظاہرہ منظم کرنے کے اعلان کے چند دن بعد ہندو رکھشادل کے صدر پنکی چودھری نے بھی اسی مقام پر اس بل کی تائید میں احتجاج منظم کرنے اپنے منصوبہ کا اعلان کیا۔

چودھری نے چہارشنبہ کے روز کہا کہ ان کی تنظیم احتجاج منظم کرے گی اور وقف بورڈ کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کرے گی۔ چودھری نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں اپنے سناتنی حامیوں سے کہا کہ دہلی پولیس کی جانب سے مسلمانوں کو وقف بل کے خلاف احتجاج کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

ہندوؤں کو بھی دیکھنا ہوگا کہ مسلمان اس مقام پر جمع نہ ہوسکیں۔ ہندوتوا لیڈر نے وقف بورڈ کو ختم کردینے کا عہد کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم تمام ہندو بھائی ملکر مقابلہ کریں تو ہم وقف بورڈ کو ختم کرسکتے ہیں۔ میں تمام ہندو بھائیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم پوری طاقت کے ساتھ جنترمنتر پہنچیں گے تاکہ 10 مارچ کو وقف ادارہ کی مخالفت کرسکیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت وقف ایکٹ کو ختم کردے اور اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ اس کے خلاف ملک بھر میں احتجاج منظم کریں۔ چودھری نے یہ بھی اشارہ دیا کہ ان کے حامی جنترمنتر پر مسلم احتجاجیوں کے ساتھ جسمانی جھڑپ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے کہا ”ہم اِن ملاؤں کو وقف بورڈ کی تائید میں جمع ہونے کی اجازت نہیں دیں گے“۔

انہوں نے ڈر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جھوٹا دعویٰ کیا کہ اگر ہندو احتجاج نہ کریں تو مسلمان لوگوں کی جائیدادوں کو وقف جائیداد قرار دیں گے۔ قبل ازیں یکم مارچ کو مسلم پرسنل بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا تھا کہ یہ بورڈ اسی دن پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے والے وقف بل کے خلاف احتجاج منظم کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ بورڈ نے کئی مسلم تنظیموں اور مسلم برادری کے ساتھ ملکر اپنا موقف پُرزور انداز میں مرکزی حکومت، اس کی حلیف جماعتوں اور خاص طور سے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے روبرو پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ بل وقف جائیدادوں کو ضبط اور تباہ کرنے کی ناپاک سازش ہے اور اسے فوری طور پر واپس لیا جانا چاہئے۔ بہرحال حکومت نے اِن اندیشوں پر اپنے کان بند کرلئے ہیں۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *