کیا سعودی عرب "معاویہ" سیریز کے ذریعے اسلامی تاریخ کو مسخ کر رہا ہے؟

مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، معاویہ کی زندگی پر مبنی ٹی وی سیریز “معاویہ” نے عراق اور مصر سمیت دیگر ممالک میں کافی ہلچل مچا دی ہے۔

مذکورہ سیریز کی پہلی دو اقساط،  رمضان کے مقدس مہینے کے آغاز کے ساتھ نشر ہونا شروع ہوئی ہیں۔ سعودی ادارے ایسٹ براڈکاسٹنگ سینٹر  (MBC) کے ذریعہ تیار کردہ ان سیریز کو تیونس میں 100 ملین ڈالر کے پروڈکشن بجٹ کے ساتھ فلمایا گیا ہے۔

 سیریز کے مصنف، خالد صلاح، ایک مصری صحافی ہیں جب کہ فلسطینی نژاد امریکی فلم ساز طارق العریان نے اس کی ہدایت کاری کی ہے۔

 حال ہی میں عراق میں “معاویہ” کی نشریات پر فرقہ وارانہ کشیدگی کے امکانات کے پیش نظر پابندی لگا دی گئی تھی اور جامعہ الازہر نے مذہبی شخصیات کی تصویر کشی کی وجہ سے  اس کی مذمت کرتے ہوئے پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

روزنامہ مڈل ایسٹ آئی، کہانی کے ہیرو “معاویہ” کو شیعہ مسلمانوں میں ایک متنازعہ شخصیت کے طور پر بیان کرتی ہے۔

 معاویہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت سے پانچ سال پہلے پیدا ہوئے تھے، وہ ابو سفیان اور ہند بنت عتبہ کے بیٹے تھے، جو اسلام کے ابتدائی اور سخت مخالفین میں سے تھے۔
 ابتدا میں اس نے پیغمبر اسلام (ص) کی مخالفت کی لیکن فتح مکہ کے بعد معاویہ اور اس کے خاندان نے اسلام قبول کرلیا۔ 

سنی مسلمانوں کے مطابق، معاویہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبوں میں سے ایک بن گیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد، انہیں خلیفہ اول، ابوبکر نے بلاد الشام کی فتح میں نائب کمانڈر کے طور پر مقرر کیا۔ عمر بن الخطاب کی خلافت کے دوران انہیں ترقی ملی اور تیسرے خلیفہ عثمان کی خلافت کے دوران وہ شام کے گورنر بنے۔

 عثمان کی وفات کے بعد معاویہ نے امام علی (ع) کی بیعت کرنے سے انکار کردیا اور عثمان کا بدلہ لینے کے بہانے امام علی (ع) کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔

 شام کے لوگوں نے عثمان کا بدلہ لینے اور امام علی (ع) کے خلاف جنگ کرنے کے لیے اس کی بیعت کی۔ جس کے نتیجے میں جنگ جمل ہوئی جو کہ مسلمانوں میں پہلی خانہ جنگی تھی، بعد میں جنگ صفین اور نہروان ہوئیں۔

40 ہجری میں امام علی کی شہادت کے بعد معاویہ نے مصر کا کنٹرول سنبھال لیا اور دمشق کو اپنا دارالحکومت بنا کر خود کو خلیفہ قرار دیا۔ 

امام علی (ع) کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے امام حسن (ع) کی بیعت کی۔ امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کی فوجوں کے درمیان جنگ میں امام حسن کی فوج کے کمانڈروں کی غداری کی وجہ سے صلح کا معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں معاویہ خلیفہ بنا۔ 

بہت سے تاریخی ذرائع معاویہ کو امام حسن (ع) کو زہر دینے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ معاویہ کے دور حکومت میں اسلامی علاقے شمالی افریقہ، اناطولیہ، وسطی ایشیا اور موجودہ ایران تک پھیل گئے۔ 

اس نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین مقرر کیا، امام حسن (ع) کے ساتھ صلح کے معاہدے کے باوجود، موروثی بادشاہت قائم کی اور بالآخر عاشورہ کا سانحہ پیش آیا، جہاں امام حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں کو شہید کردیا گیا۔ 
شیعہ مسلمان معاویہ کو ایک ایسا شخص سمجھتے ہیں جس نے خلافت کو موروثی بادشاہت میں بدل دیا، امام علی (ع) کے خلاف جنگ کی اور امام حسن (ع) کو زہر دے دیا۔

عراق میں پابندی لگا دی گئی

معاویہ کے بارے میں شیعہ عقائد کے نتیجے میں، عراق میں نئی ​​سیریز پر پابندی لگا دی گئی اور عراقی کمیونیکیشنز اینڈ میڈیا کمیشن نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ اس طرح کے متنازعہ تاریخی مواد کو نشر کرنے سے فرقہ وارانہ بحثیں شروع ہو سکتی ہیں جو سماجی ہم آہنگی اور کمیونٹی کے امن کو متاثر کر سکتی ہیں۔

عراقی کمیشن نے ایم بی سی عراق کو پروگرام نشر نہ کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان سیریز کو نشر کرنے سے عراق اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تنازعہ پیدا ہو سکتا ہے۔

 دو سال قبل، عراق کے بااثر شیعہ عالم اور سیاسی شخصیت مقتدی الصدر نے اس سیریز کو مکمل طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ 
انہوں نے “معاویہ” کو فرقہ واریت کا ذمہ دار، پیغمبر کے اصحاب کو اذیت پہنچانے والا، امام علی (ع) کی نافرمانی کرنے والا اور اسلامی اتحاد کو نقصان پہنچانے والا پہلا شخص قرار دیا۔

انہوں نے معاویہ پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے قتل کی سازش کرنے والا تھا۔ 

 انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی سیریز نشر کرنا سعودی عرب کی نئی اور معتدل پالیسیوں سے متصادم ہے اور زور دیا کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

 دوسری طرف عراقی ٹی وی چینل الشعر نے “معاویہ” سیریز کے جواب میں، ایرانی جنگجو ابو لولو کے بارے میں سیریز تیار کرنے کی دھمکی کی تھی، جس نے عمر بن الخطاب کو قتل کیا تھا۔

مقتدی الصدر نے دونوں ٹی وی چینلوں کو باطل اور تفرقہ انگیز قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا، کیونکہ معاویہ سنی اسلام کی نمائندگی نہیں کرتا اور ابو لولو شیعہ اسلام کا نمائندہ نہیں۔

 انہوں نے اس طرح کی “جھوٹی تاریخی سیریز نشر کرنے والوں” کو  فرقہ واریت کے ذمہ دار قرار دیا۔

اگرچہ MBC  کی طرف سے اس ردعمل کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے، تاہم سیریز کو نشر کرنے میں دو سال کی تاخیر کی وجہ فرقہ وارانہ تنازعات کا امکان ہوسکتا ہے۔

صدر اسلام کی شخصیات کی تصویر کشی

 صدر اسلام کی شخصیات کی تصویر کشی فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے سکتی ہے جس میں امام علی اور امام حسن (ع) کی تصویر کشی بھی شامل ہے۔ جس کے نتیجے میں مصر میں ایک قانونی اور فقہی تنازعہ پیدا ہوا، جہاں ایک وکیل نے امام علی علیہ السلام کی تصویر کشی کی وجہ سے سیریز کی نشریات کو روکنے کے لیے مقدمہ دائر کیا۔ 

سعودی میڈیا کا اثر 

مذکورہ سیریز کو مصری صحافی خالد صلاح نے لکھا تھا اور اس کی ہدایت کاری فلسطینی نژاد امریکی فلمساز طارق العریان نے کی تھی۔ فلسطینی اداکار علی سلیمان کے کردار سے دستبردار ہونے کے بعد شامی اداکار لوجین اسماعیل نے معاویہ کا کردار ادا کیا۔ 

دیگر اداکاروں میں اسماء گلال، عائشہ بن احمد، جمیلہ شھی، اور امام علی (ع) کا کردار ادا کرنے والے ایاد نصر شامل ہیں۔ 

سیریز کے مصنف خالد صلاح نے تنقیدوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد کوئی خاص بیانیہ پیش کرنا نہیں تھا اور انہوں نے تاریخ کو سیاہ اور سفید میں نہیں لکھا۔

 انہوں نے مزید کہا کہ معاویہ کو نہ صرف ایک حکمران کے طور پر دکھایا گیا ہے بلکہ ایک ایسے شخص کے طور پر دکھایا گیا ہے جس نے غلطیاں کیں اور سب کی طرح اس کا انجام ہوا۔

 مذکورہ سیریز کو تیونس میں 2023 میں کارتھیج فلم اسٹوڈیوز میں فلمایا گیا تھا۔
 رپورٹس بتاتی ہیں کہ ابتدائی بجٹ کا تخمینہ تقریباً 75 ملین ڈالر تھا، لیکن پیداواری لاگت 100 ملین ڈالر سے تجاوز کر گئی۔ 

اس سیریز کو سعودی عرب کے سب سے بڑے ٹیلی وی نیٹ ورک مڈل ایسٹ براڈکاسٹنگ سینٹر (MBC) نے تیار کیا ہے جسے 1991 میں سعودی تاجر ولید الابراہیم نے لندن میں قائم کیا تھا۔
یہ سعودی عرب میں میڈیا کے منظر نامے پر حاوی ہے، جو روزانہ تقریباً 140 ملین ناظرین تک پہنچتا ہے۔ 

 عراق میں پابندی اور مصر میں الازہر کے علماء کی طرف سے سیریز کو دیکھنے پر پابندی کا فتویٰ جاری ہونے کے باوجود “معاویہ” سیریز رمضان کے مقدس مہینے کے آغاز میں نشر ہونا شروع ہوئی۔ 

مذکورہ سیریز کو نشر کرنے کے فیصلے نے بحث کی ایک لہر کو جنم دیا ہے، خاص طور پر کئی اہم تاریخی شخصیات کی تصویر کشی کی وجہ سے الازہر نے مسلسل سنیما اور ٹیلی ویژن میں ان شخصیات کی تصویر کشی کی مخالفت کی ہے۔

رمضان المبارک کے مقدس مہینے سے فائدہ اٹھانا 

رمضان کا مقدس مہینہ ایک ایسا وقت ہے جہاں زیادہ تر عرب ٹی وی سیریز پہلی بار نشر کی جاتی ہیں، یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سعودی چینل ایم بی سی کو اسلامی تاریخ کے متنازعہ واقعات، خاص طور پر شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلانے والے واقعات کے بارے میں ٹی وی سیریز بنانے پر احتجاج کا سامنا کرنا پڑا ہو۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *