اڈیشہ: 16 ماہ کے ’جنمیش‘ بنے اعضا عطیہ کرنے والے سب سے کم عمر انسان، مرتے مرتے 2 لوگوں کو دی زندگی

جنمیش نے سانس لینے کے دوران کوئی بیرونی چیز اندر لے لی، جس سے اس کی سانس کی نلی میں رکاوٹ آ گئی اور اسے سانس لینے میں دقت ہونے لگی۔ 12 فروری کو اسے ایمس بھوونیشور کے شعبہ اطفال میں داخل کرایا گیا۔

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر، آئی اے این ایس</p></div><div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر، آئی اے این ایس</p></div>

علامتی تصویر، آئی اے این ایس

user

بھوونیشور کا 16 ماہ کا ایک بچہ اڈیشہ کا سب سے کم عمر کا عضو عطیہ کرنے والا انسان بن گیا ہے۔ اس بچے نے لیور اور کڈنی عطیہ کر کے 2 مریضوں کو نئی زندگی دی۔ بھوونیشور کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) کے ایک افسر نے پیر (3 مارچ) کو اس سلسلے میں جانکاری فراہم کی۔ جنمیش لینکا کے والدین نے عضو عطیہ کرنے کا جرأت مندانہ فیصلہ لیا، جس سے ان کا ذاتی سانحہ دوسروں کے لیے امید کی شمع میں بدل گیا۔ دراصل جنمیش نے سانس لینے کے دوران کوئی بیرونی چیز اندر لے لی تھی، جس سے اس کی سانس کی نلی میں رکاوٹ آ  گئی اور اسے سانس لینے میں دقت ہونے لگی۔ 12 فروری کو جنمیش کو ایمس بھوونیشور کے شعبہ اطفال میں داخل کرایا گیا۔

ایمس کے افسر نے بتایا کہ ’فوری کارڈیو پلمونری ریسیسیٹیشن‘ (سی پی آر) دیے جانے اور اگلے 2 ہفتوں تک اس کی صحت کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی نگہداشت کی ٹیم نے انتھک محنت کی۔ اس کے باوجود یکم مارچ کو اس بچے کو ’برین ڈیڈ‘ یعنی دماغی طور پر مردہ قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد دوسروں کو زندگی کا تحفہ دینے کے امکان کو تسلیم کرتے ہوئے ایمس کی میڈیکل ٹیم نے سوگوار والدین کو عضو عطیہ کرنے کا مشورہ دیا۔ بچے کے والدین نے اعضاء کو ’زندگی بچانے والے ٹرانسپلانٹ‘ کے لیے استعمال کرنے کی منظوری دے دی۔

ڈاکٹر برہمدت پٹنائک کی سربراہی میں ’گیسٹرو سرجری ٹیم‘ (پیٹ سے متعلق امراض کے ڈاکٹر) کے ذریعہ لیور کو کامیابی کے ساتھ نکال لیا گیا اور اسے نئی دہلی میں واقع ’انسٹی ٹیوٹ آف لیور اینڈ بلیری سائنسز‘ (آئی ایل بی ایس) لے جایا گیا۔ جہاں اسے ایک بچے میں ٹرانسپلانٹ کیا گیا جو آخری مرحلے کی لیور کی ناکامی میں مبتلا تھا۔ افسر کے مطابق کڈنی کو نکال کر ایمس بھوونیوشور میں ایک نوعمر مریض میں ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔

قابل ذکر ہے کہ ہندوستان میں عضو عطیہ کرنے کی شرح کافی کم ہے۔ یہاں پر مردہ جسم  سے عضو عطیہ کرنے والوں کی تعداد 10 لاکھ افراد میں ایک سے بھی کم ہے۔ اس کے برخلاف، مغربی ممالک میں 80-70 فیصد اعضاء کا عطیہ مردہ جسموں سے آتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اعضاء کے عطیے کی کمی کے ساتھ ساتھ اعضاء کا ضیاع بھی ملک میں ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے، جو یقیناً ایک تشویشناک امر ہے۔ ایسے میں جنمیش کے والدین کا یہ جرات مندانہ فیصلہ قابل تعریف ہے جس سے مزید لوگوں کو اعضاء عطیہ کرنے کی ترغیب ملے گی۔


[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *