مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان سماجی صف بندی اورہندوستان کے آئیڈیا کی حفاظت کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ایڈوکیٹ شرف الدین احمد 

نئی دہلی۔ (پریس ریلیز)۔ کمبائنڈ موومنٹ فار کانسٹیشنل رائٹس آف دی مینارٹیز (CMCRM) کی طرف سے 23فروری 2025کو دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر آڈیٹوریم میں اقلیتوں کے آئینی حقوق کے لیے مشترکہ تحریک کے ایک حصے کے طور پر ملیر کوٹلہ بھائی چارے کا جشن منایا گیا۔ جس میں مسلم۔سکھ دونوں برادریوں کے سرکردہ رہنماؤں نے دونوں سماج کے بڑھتے ہوئے پسماندگی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا اور آئینی حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے یکجہتی کی ضرورت پر زور دیا۔تقریب کی صدارت مولانا عبید اللہ خان اعظمی، نائب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ و سابق رکن پارلیمان (راجیہ سبھا)، نے کی۔ مہمان خصوصی کے طور پر گیانی کیول سنگھ سابق جھتیدار، تخت شری دمدما صاحب جی اور اعزازی مہمان کے طور پر اسلم شیر خان، سابق یونین کابینہ وزیر، ڈاکٹر نصیر اخترکنوینرسکھ مسلم سانجھن، ملیر کوٹلہ، ڈاکٹر بھوپیندر کوریونائٹیڈ سکھس، یواین، حیدر آباد، ایم ڈبلیو انصاری سابق ڈی جی پی چھتیس گڑھ، سردار پرمجیت سنگھ سرنا، سابق صدر دہلی سکھ گردوارہ مینجمنٹ کمیٹی،اجئے پال سنگھ برار،صدر ستلج مثل چندی گڑھ، مولانا پارے حسن افضل

 

فردوسی،،میرواعظ نارتھ کشمیر، پرم پال سنگھ سبرا، کنوینر الائنس آف سنگھ آرگنائزیشنس شریک رہے۔ پروگرام کے کنوینر کے طورپر شرف الدین احمد، اڈوکیٹ سپریم کورٹ آف انڈیا اور جوائنٹ کنوینر اڈوکیٹ منوج سنگھ دہان نے تقریب کی کامیاب انعقاد پر اہم کردار ادا کیا۔ پروگرام میں COMBINED MOVEMENT FOR THE CONSTITUITIONAL RIGHTS OF MINORITIES(CMCRM)کے آرگنائزنگ کمیٹی اراکین عبدلمعین جئے پوری، ایس ایم انور حسین پٹنہ، علی انعامدارپونے،یامین خان دہلی، ایچ ایم ہاشم ملک دہلی، مولانا عبدالرشید باغپت، اڈوکیٹ ایم اے شکیل حیدر آباد، نوید اعظم آفریدی دہلی، اڈوکیٹ عزیز الرحمن ممبئی، اڈوکیٹ خواجہ افنان احمد سہارنپور، ساجد یوسف کانپور، محمد کاشف رضا صدیقی جھارکھنڈ، مطاہر حسین مرشدآباد، اڈوکیٹ، سپریم کورٹ آف انڈیا موجودر ہے۔ اپنے صدارتی خطاب میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر و سابق راجیہ سبھا رکن پارلیمان مولانا عبید اللہ خان اعظمی نے حاضرین کو ان کی مشترکہ تاریخ یاد دلائی۔ ”سفید حملہ آوروں نے ہمیں تقسیم کرنے سے پہلے ہم ایک قوم تھے۔ انہوں نے ہم پر تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اختیار کی اور آج، ان کے ‘سیاہ جانشینوں ‘ نے اسی پالیسی کو جاری رکھا ہوا ہے۔ لیکن ہمیں ان کے سفید آقاؤں کے خلاف لڑنے سے زیادہ طاقت کے ساتھ لڑنا چاہیے،‘۔

 

اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، گیانی کیول سنگھ، جو تخت سری دمدمہ صاحب کے سابق جتھیدار ہیں، نے کہا کہ۔ ”آئین تمام ہندوستانیوں کو مساوی قرار دیتا ہے، لیکن حقیقت میں، یہ اصول غائب ہے۔ آزادی کے 75 سال بعد بھی ہم خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ ہندوستان کی آزادی کے لیے سکھوں اور مسلمانوں کی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ”ہم جدوجہد آزادی کے دوران شہید ہوئے اور آج بھی ہم کسانوں کے حقوق کے لیے سڑکوں پر لڑ رہے ہیں۔“

اس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے پروگرام کنوینر اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں اور سکھوں اور اس کے بعد ملک میں تمام اقلیتوں اور کمزور طبقوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔مسلمان اور سکھ یکساں طور پر امتیازی فساد کا شکار رہے ہیں اس لیے متحد ہوکر نہ صرف سب کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے بلکہ ملک میں اقلیتوں کے آئینی حقوق کے نفاذ میں سہولت فراہم کرنے کی جدوجہد میں آگے بڑھنا ہمار ا فرض ہے۔اقلیتوں کے لیے آئینی حقوق کی ہموار فراہمی کے لیے مشترکہ اور اجتماعی کوششوں کی پورے ملک میں ناگزیر ضرورت ہے اس لیے ہماری کوششوں کو پورے ملک میں پھیلانا چاہیے۔

ملیرکوٹلہ کے مسلمانوں نے پورے دل سے سکھوں پر اعتماد برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا اور تقسیم کے ہنگامے کے غیر معمولی اور مشکل حالات میں بھی ثابت قدم رہے۔آزادی کے بعد، کئی مواقع ایسے آئے جب سکھ بھائی مضبوطی کے ساتھ ملیرکوٹلہ کے چیلنجوں سے جوچ رہے مسلمانوں کی حمایت کے لیے آگے آئے۔ ملیرکوٹلہ میں مروجہ جذبہ ہمیں مشترکہ کوششوں کی تحریک کے تحت دوسرے حصوں تک پھیلاتے ہوئے اپنے ملک بھر میں ایک جیسی چمک پیدا کرنے میں سہولت فراہم کرنے کی ترغیب دیتا ہے لہٰذا، ہم ملیرکوٹلہ کی عظیم وراثت کی بنیاد پر اپنی نوجوان نسل کوبھرپور اور شاندار تاریخ سے جوڑنا چاہتے ہیں۔ اگر محاذ آرائی کریں گے تو ہندوستان کے حقیقی آئیڈیا کو بحال کرنے اور مضبوط کرنے کے لیے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ پروگرام کے جوائنٹ کنوینر اڈوکیٹ منوج سنگھ دہان نے کہا کہ ابتدائی طور پر سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان سماجی صف بندی قائم کرنے کی یہ کوششیں بالآخر تمام اقلیتوں کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام کمزور طبقات کے لوگوں کو برابری اور انصاف کی فراہمی کا نتیجہ بن سکتی ہیں۔اگر مسلمان اور سکھ مشترکہ طور پر بری طاقتوں کے خلاف جو ملک میں سیکولر، آئینی، جمہوری نظام کو نقصان پہنچانے اور ختم کرنے پر تلی ہوئی ہیں ان کے خلاف ملیر کوٹلہ نے تاریخ ہندوستان کے ہنگامہ خیز دور اور آزادی کے بعد بھی بھائی چارے اور ہم آہنگی کی ایک منفرد آواز کے طور پر اپنی شناخت قائم رکھی ہے۔ یہ آواز ایک غیر متوقع شخصیت، نواب شیر محمد خان ملیر کوٹلہ کی طرف سے اٹھی،جنہوں نے دیگر پہاڑی راجاؤں اور وزیر خان کے برعکس، جنہوں نے ظلم وستم کی سازش رچی تھی، معصوم صاحبزادوں کی شہادت کی کھل کر مذمت کی۔ انہوں نے اس بربریت کو اسلام کی تعلیمات اور انسانی اقدارکے منافی قرار دیا۔ ان کی جرات مندانہ مخالفت کو وزیر خان نے نظر انداز کیا، مگر اس کا ایک دیر پا اور تاریخی اثر باقی رہا اور انہیں گرو گووند سنگھ جی کی جانب سے ملیر کوٹلہ کی ابدی خوشحالی

 

اور ہم آہنگی کی دعا حاصل ہوئی، ملیر کوٹلہ میں سکھ اور مسلمانوں کے درمیان مثالی بردرانہ تعلقات نے تقسیم کے وقت پیدا ہونے والے فرقہ وارانہ انتشار کو مغلوب کردیا۔ ہم اس شاندار ورثے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور یہ عہد کرتے ہیں کہ ملک میں عدل و انصاف کے نظام کے قیام اور استحکام کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ یہ پروگرام ملیر کوٹلہ تمام باشندوں کے نام منسوب ہے، جو ہر قسم کے حالات کا بہادری سے مقابلہ کرتے رہے ہیں۔ ملیر کوٹلہ کے درخشاں نظریات ہمیں حوصلہ بخشتے ہیں، اور ان کی لطیف نشانیاں ہمیں واضح راہ دکھاتی ہیں تاکہ ہم ملک بھر میں مساوات اور انصاف کے اصولوں پر مبنی ایک طاقتور اور دیر پا آواز بلند کرسکیں اور جمہوری سیکولر ہندوستان کے اقدار کو فروغ دے سکیں۔

سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی ضرورت کی بازگشت دہلی سکھ گوردوارہ مینجمنٹ کمیٹی کے سابق صدر سردار پرمجیت سنگھ سرنا نے دی۔اگر ہم اکٹھے نہیں ہوئے تو دونوں کمیونٹیز خطرے میں پڑ جائیں گی۔ حکومت ہمارے اتحاد میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرے گی، لیکن ملکی سالمیت کی خاطر ہمیں ہاتھ ملانا ہوں گے،“ ۔

معروف سابق ہاکی کھلاڑی اسلم شیر خان نے مسلم سکھ اشتراک کی تاریخی طاقت پر زور دیا۔ اگر ہندوستان میں کوئی حقیقی طاقت ہے تو وہ سکھ اور مسلم برادریوں میں ہے۔ تاریخ ہماری خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

پرمجیت سنگھ غازی، چیف ایڈیٹر سکھ سیاست نے 2014 کے بعد ہندوستان کے سیاسی منظر نامے میں تبدیلی پر روشنی ڈالی۔

، دہلی گوردوارہ پربندھک کمیٹی کی رکن بی بی رنجیت کور نے کہا کہ، ”ہم ہمیشہ اس مقصد کے لیے کھڑے رہیں گے۔”

 

مالیرکوٹلہ کا تاریخی واقعہ شمالی کشمیر کے میر واعظ مولانا پارے حسن افضل فردوسی نے سنایا۔ انہوں نے یاد کیا کہ کس طرح ملیرکوٹلہ کے نواب شیر محمد خان نے گرو گوبند سنگھ کے بیٹوں کی پھانسی کے خلاف احتجاج کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال دی تھی۔ ‘

 

 

 

 

 

 

 

 

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *