از :۔ پروفیسر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com.,
Ph.D (Osm
انسان کی سعادتمندی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نفسانی خواہشات کی پیروی ہے اسی لیے صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ تہذیب نفس کے بغیر نجات کا تصور کرنا بھی محال ہے چونکہ فلاح و رست گاری ترک خواہشات کی رہین منت ہے۔ قرآن مجید نے نفسانی خواہشات کی مخالفت کو حصول جنت کی شاہ کلید قرار دیاہے۔ جو شخص تہذیب نفس میں ناکام ہوجاتا ہے محرومیت ، شکست اور بدبختی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ گراں بہا و خدا داد صلاحیتوں سے بہرور انسان اگر نفسانی خواہشات کا اسیر بن جاتا ہے تو اس کی حالت بے شعور موشیوں سے بدتر ہوجاتی ہے۔ اللہ جل شانہ و عم نوالہ سورۃ الشمس میں متعدد قسمیں یاد فرمانے کے بعد ارشاد فرماتا ہے کہ تہذیب نفس کے بغیر نجات ممکن نہیں۔ بعض علماء کرام ارشاد فرماتے ہیں کہ اس سورۃ کی ابتداء میں اللہ تعالی نے 7قسمیں یعنی (i)سورج، (ii)چاند، (iii)دن، (iv)رات، (v)آسمان، (vi)زمین اور (vii)نفس کی قسم کھائی ہے۔ جبکہ بعض کا خیال ہے کہ اس سورۃ میں اللہ رب العزت 14 قسمیں یعنی (i) آفتاب، (ii) آفتاب کی حرارت، (iii) مہتاب، (iv) مہتاب کے پیچھے آنے (v) دن ، (vi) دن کی روشنی ، (vii) رات ، (viii) رات کے دن کو چھپانے،(ix) آسمان ، (x) آسمان کے بنانے والے، (xi)زمین ، (xii)زمین کو بچھانے والے، (xiii) نفس ، اور (xiv) نفس کو درست کرنے والے کی قسم یاد فرمائی ہے تاکہ بندہ مومن پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ اس مضمون کو سماعت کرے جو ان قسموں کے بعد بیان ہونے والا ہے۔
صرف نظر اس کے کہ اس سورۃ میں 7 قسمیں بیان ہوئیں یا 14 ، لیکن ایک بات تو متحقق ہے کہ اللہ تعالی نے اس قدر کثرت سے تاکیدی قسمیں کسی اور سورۃ میں یاد نہیں فرمائی ۔ اس سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ رب کائنات جو موضوع اور مضمون ان قسموں کے بعد بیان فرما رہا ہے وہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس پر توجہ دینا ہر مسلمان کی مذہبی ذمہد اری ہے۔جب معاشرہ کا کوئی معتبر شخص قسم کھاکر کوئی بات کہے تو اس بات کی سچائی اور اہمیت کو بغیر کسی دلیل کے مان لیا جاتا ہے تو اب اندازہ کیجیے کہ جب رب کائنات نے ایک نہیں بلکہ 7 یا 14 قسمیں یاد فرمانے کے بعد اپنے بندوں کو کسی چیز کی حقیقت سے واقف کروارہا ہے تو اس کی اہمیت کتنی زیادہ ہوگی اس کا اندازہ ہم بخوبی لگاسکتے ہیں۔اللہ تعالی اس سورۃ میں یہ بیان فرمارہا ہے کہ ہم نے انسانی فطرت میں حق و باطل ، نیک و بد اور حسن و قبح میں تمیز کرنے کا شعور ودیعت فرماکر سعادتمندی و خوش بختی کے تمام مادی و معنوی وسائل فراہم کردیئے ہیں لیکن بامراد و کامیاب وہی ہوگا جو اپنے نفس کی مناسب نگہداشت کرے گا، نفس کی مخفی و پوشیدہ صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے نفس کو دنیاوی آلائشوں اور ناپاکیوں سے پاک کرے گا
اور اور نامراد و ناکام ہوگا وہ شخص جو نفس کی صلاحیتوں کا گلا گھونٹ دیگا اور نفسانی خواہشات کے ریلے میں تنکوں کی طرح بہتا چلا جائے گا۔مذکورہ بالا آیات بینات سے حقیقت کا یہ پہلو بھی واضح ہوجاتا ہے کہ انسان کی نجات کا مدار اچھے خیالات، عمدہ تفکرات پر نہیں ہے بلکہ نفس کی تہذیب پر ہے جس کے لیے عزم و استقلال کے ساتھ عملی جد و جہد درکار ہوتی ہے۔رمضان المبارک میں روزے فرض کرکے اسی کی تربیت کروائی جاتی ہے لیکن صد حیف کہ ہم مسلمان رمضان المبارک میں تربیت حاصل کرتے ہیں لیکن جب ہم میدان عمل میں جاتے ہیں تو رمضان المبارک کے پیغام کو بھلاکر حرص و شہوت اور نفسانی خواہشات کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ہم ذلت و خواری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ خواہشات نفسانی کی اتباع سرکشی و بت پرستی، غفلت وبے خبری، کفر و بے ایمانی، ظلم و زیادتی، فساد و تباہی کا سرچشمہ ہے۔ مسلم معاشرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں ہمیں علم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا تمام افعال قبیحہ ہمارے معاشرے کی پہچان بن چکے ہیں چونکہ ہم نفسانی خواہشات کے مکمل طور پر اسیر ہوچکے ہیںجبکہ رمضان المبارک کے روزے اس لیے فرض کیے گیے ہیں تاکہ ہم نفس کی اصلاح و تہذیب کرسکیں۔ اگر روزے رکھنے کے باوجود ہم نفسانی خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ہنر نہ سیکھ سکیں تو پھر ہم روزے کے اصل مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں ،روزے کے تمام فضائل و برکات سے ہم محروم ہوجاتے ہیں اور ہمارا شمار ان روزے داروں میں ہوگا جن کے متعلق تاجدار
کائناتؐ نے ارشاد فرمایا
بعض روزے دار ایسے ہیں جنہیں بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا (العیاذ باللہ) ۔روزہ فاقہ کشی کا نام نہیں ہے بلکہ روزہ ایک تربیت ہے جس میں مسلمانوں کو بھوک اور پیاس کے ذریعہ آزمایا جاتا ہے تاکہ ان کے اندر نفسانی خواہشات کی مخالفت کرنے کا مادہ پیدا ہوجائے ۔ ماہرین کا ماننا ہے جو شخص بھوک اور پیاس پر قابو پالیتا ہے وہ زندگی میں ہر شئی بشمول نفسانی خواہشات پر باآسانی قابو پاسکتا ہے۔ اگر ہم نفوس قدسیہ اور بزرگان دین کے احوال و کوائف کا مطالعہ کریں جنہوں نے اپنی زندگی میں کارہائے نمایاں سر انجام دیئے ہیںاور عظیم وبلند مرتبہ پر فائز ہوئے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے ’’قلت طعام‘‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔جو لوگ بھوک اور پیاس پر قابو پالیتے ہیں وہ زندگی میں عظیم کارنامے انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جو بھوک اور پیاس پر قابو نہیں پاسکتے وہ زندگی میں قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دے سکتے بلکہ ایسے لوگ انسان اور انسانیت کے لیے مصائب و آلام اور خطرات پیدا کرتے ہیں۔ نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے والے انسان دنیا کے لیے سب سے خطرناک اور نقصان دہ ہیں۔معاصر اور سنین ماضیہ جو انسانی جانوں کا اتلاف ہوا ہے، خواتین کی عصمتوں کو تارتار کیا گیاہے، بچوں کے مستقبل سے کھلواڑ ہوا ہے، ممالک اور وہاں کے مقیم باشندوں کو تباہ و تارج کیا گیا ہے اس کے پیچھے صرف اور صرف انسان کی نفسانی خواہشات کارفرما رہی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان عظمت انسانی کی بلندیوں سے گرتا چلا جارہا ہے اور ترقی کے تمام مادی ذرائع ہونے کے باوجود آج کا انسان انسانیت کو ترس رہا ہے۔ اگر انسان نفسانی خواہشات پر قابو پالے تو دنیا جنت نشان بن سکتی ہے۔وہ شخص اپنی بدنصیبی اور محرومی کا جتنا بھی ماتم کرے کم ہے جسے اللہ رب العزت رحمتوں، عنایتوں، فضیلتوں، بخششوں کا مہینہ یعنی رمضان المبارک عطا فرمائے اور وہ اپنے نفس کی تہذیب و اصلاح میں بری طرح ناکام رہے چونکہ بے لگام نفس کفر و بے ایمانی کا سرچشمہ بھی جو انسان کو راہ راست سے ہٹادیتا ہے، بغاوت و سرکشی پر ابھارتا ہے اور گمراہی کے دلدل میں دھنسا دیتا ہے ۔یہ کس قدر معیوب بات ہے کہ مسلمان رمضان المبارک میں اللہ اور اس کے رسول کی رضا و خوشنودی کے لیے حلال اشیاء سے اجتناب کرتے ہیں لیکن مابقی زندگی میں حرام اشیاء سے بھی پرہیزنہیں کرتے ۔رمضان المبارک کو عبادات و حسنات، ذکر و اذکار اور اوراد و وظائف میں گزارنے کے باوجود مابعد رمضان المبارک خواہشِ نفس کے عبادت گزار بن جانا، فریب خوردگی کا شکار ہوکر شخصی و مادی مقاصد کے حصول پر توجہ دینا، حاضر و ظاہری رنگینیوں میں مصروف رہنا، روحانی لذتوں کو چھوڑ کر حقیر دنیا کی لذتوں میں منہمک ہوجانا ،اسے آخرت کی دائمی و سرمدی لذتوںپر فوقیت و ترجیح دینا ہماری ذہنی پستی و فکری انحطاط کی غماز ہے اور یہ وہ غلط روش ہے جو بروز محشر اجر و ثواب سے محرومی اور اپنے آپ کو ہلاکت کے حوالے کردینے کا سبب بنے گی جس دن نہ ہمیں توبہ کرنے کی مہلت دی جائے گی اور نہ ہی ہمیں تلافی اعمال کا موقع ملے گا۔مسلمانوں کو
چشم ہوش کھولنا چاہیے تاکہ رمضان المبارک میں جو تربیت ہم حاصل کر رہے ہیں دیگر ایام میں اس کا عملی مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہیں اورخیر امت کہلانے کے حقدار بنیں ۔اس مقصد جلیل کے حصول کے لیے انسان اپنی توانائیوں، صلاحیتوں اور ریاضات و مجاہدات پر تکیہ نہ کرے بلکہ رحمن و رحیم مولا کی نگاہِ کرم پر بھروسہ کرے چونکہ رب اگر ہمیں ہمارے نفس کے حوالے کردے تو پھر کسی بشر میں یہ طاقت نہیں کہ وہ نفس کے دام فریب میں پھنسنے سے بچ جائے اور روح فرسا حالات ، جذبات کو مشتعل کردینے والے مشکلات میں ثابت قدم رہ سکے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔