’بی جے پی حکومت میں موجود معاشی ناانصافی غرباء کے لیے لعنت بن گئی‘، بلوم ونچرس کی رپورٹ پر پرینکا کا سخت رد عمل

پرینکا گاندھی نے کہا کہ آج ملک میں عدم مساوات حد سے زیادہ ہے۔ مجموعی قومی آمدنی کا 57.7 فیصد حصہ سب سے امیر 10 فیصد لوگوں کے پاس ہے اور سب سے غریب 50 فیصد آبادی کی حصہ داری محض 15 فیصد ہے۔

<div class="paragraphs"><p>پرینکا گاندھی، تصویر @INCIndia</p></div><div class="paragraphs"><p>پرینکا گاندھی، تصویر @INCIndia</p></div>

پرینکا گاندھی، تصویر @INCIndia

user

گزشتہ دنوں ’بلوم ونچرس‘ کی ایک رپورٹ سامنے آئی تھی جس میں انکشاف ہوا تھا کہ ہندوستان میں امیر مزید امیر ہوتے جا رہے ہیں اور غریبوں میں مزید غربت بڑھتی جا رہی ہے۔ یعنی امیروں اور غریبوں کے درمیان کا فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس عدم مساوات پر کانگریس جنرل سکریٹری اور رکن پارلیمنٹ پرینکا گاندھی نے آج سخت رد عمل کا اظہار کیا۔ انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر کیے گئے ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’’ملک کے 140 کروڑ لوگوں میں سے تقریباً 100 کروڑ لوگ ایسے ہیں جن کے پاس زندگی کے سب سے ضروری خرچوں کے علاوہ کچھ بھی خریدنے کے لیے پیسے نہیں بچتے۔ ایسا ’بلوم ونچرس‘ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے۔‘‘

اس رپورٹ کے حوالے سے پرینکا گاندھی نے ملک کے موجودہ حالات پر اظہار فکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج ملک میں عدم مساوات حد سے زیادہ ہے۔ مجموعی قومی آمدنی کا 57.7 فیصد حصہ سب سے امیر 10 فیصد لوگوں کے پاس ہے، اور سب سے غریب 50 فیصد آبادی کی حصہ داری محض 15 فیصد ہے۔‘‘ وہ مزید لکھتی ہیں کہ ’’مڈل کلاس کی بچت 50 سال کی ذیلی سطح پر ہے اور نوکری پیشہ لوگوں کی آمدنی 10 سالوں سے ٹھہری ہوئی ہے۔ صرف چند امیر مزید امیر ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘ اپنے پوسٹ کے آخر میں انتہائی تلخ انداز اختیار کرتے ہوئے پرینکا نے لکھا ہے کہ ’’بی جے پی حکومت میں موجود معاشی ناانصافی ملک کے غریب و متوسط طبقہ کے لیے لعنت بن گئی ہے۔‘‘

کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے بھی آج ’بلوم ونچرس‘ کے ذریعہ جاری ’انڈس ویلی سالانہ رپورٹ 2025‘ پر اپنا بیان جاری کیا ہے۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ رپورٹ ہندوستان کے معاشی منظرنامہ اور اسٹارٹ ایکو سسٹم کا تجزیہ کرتی ہے، ساتھ ہی ہندوستانی معیشت پر گہرائی سے روشنی ڈالتی ہے۔ جئے رام رمیش کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کی سب سے فکر انگیز بات ہندوستان کے گھریلو مالی حالات سے متعلق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہندوستان کی کووڈ 19 کے بعد کی معاشی ریکوری خاص طور سے قرض کے ذریعہ آپریٹ صارفیت اضافہ پر مبنی تھی۔ وبا کے بعد کے سالوں میں صارفین قرض ذاتی حتمی استعمال والے خرچ کا تقریباً 18 فیصد تھا۔ اس دوران ذاتی قرض نے صنعتی قرض کی جگہ لے لی اور یہ غیر زرعی قرض کا سب سے بڑا حصہ بن گیا۔ یہ ذاتی سرمایہ کاری کی سطح میں گراوٹ کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘

جئے رام رمیش نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’گھریلو قرض بڑھنے کے ایک منفی پہلو کی شکل میں خاندانوں کی بچت، خاص طور سے معاشی بچت، گھٹتی جا رہی ہے۔ مالی سال 2000 میں جہاں گھریلو بچت کا حصہ 84 فیصد تھا، وہ مالی سال 2023 میں گھٹ کر 61 فیصد رہ گیا، جو کہ غیر سرمایہ کاری والے کارپوریٹ منافع میں اضافہ کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’اس گہرے بحران کی بنیادی جڑی حقیقی مزدوری میں ٹھہراؤ ہے، چاہے وہ تنخواہ دار شعبہ ہو یا غیر منظم دیہی شعبہ۔ جب تک لیبر پروڈکٹیویٹی اور مزدوری نہیں بڑھتی، صارفیت میں کوئی بھی اضافہ غیر مستحکم قرض اُچھال پر منحصر ہوگا۔ یہ بحران پہلی بار ابھرنے کے 10 سال بعد اور کووڈ 19 کے 5 سال بعد بھی حکومت ماننے سے انکار کر رہی ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *