آبکاری پالیسی سے دہلی کو 2000 کروڑ روپے کا ہوا نقصان، ہنگامہ کے درمیان سی اے جی رپورٹ اسمبلی میں پیش

سی اے جی رپورٹ میں لائسنس جاری کرنے کے طریقہ کار میں اصولوں کی خلاف ورزیوں کو نشان زد کیا گیا ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ نئی آبکاری پالیسی سے متعلق ماہرین کے پینل کی سفارشات کو نظر انداز کیا گیا۔

<div class="paragraphs"><p>دہلی اسمبلی اسپیکر وجیندر گپتا</p></div><div class="paragraphs"><p>دہلی اسمبلی اسپیکر وجیندر گپتا</p></div>

دہلی اسمبلی اسپیکر وجیندر گپتا

user

دہلی اسمبلی میں منگل (25 فروری) کے روز آبکاری پالیسی سے متعلق سی اے جی رپورٹ پیش کی گئی۔ اس سے قبل عآپ کی جانب سے کچھ دیگر معاملوں کو لے کر خوب ہنگامہ ہوا، جس کے تعلق سے بی جے پی کا الزام ہے کہ یہ سی اے جی رپورٹ پیش کرنے میں رخنہ اندازی کی کوشش تھی۔ ہنگامہ کرنے والے 11 عآپ اراکین اسمبلی کو آج دن بھر کے لیے اسمبلی سے معطل بھی کر دیا گیا۔ بعد ازاں آبکاری پالیسی پر سی اے جی کی رپورٹ پیش کی گئی۔

اس دوران دہلی اسپیکر وجیندر گپتا نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے رپورٹ کو دبا کر رکھا ہوا تھا اور رپورٹ سے متعلق کچھ گمراہیاں پھیلائی گئیں۔ سی اے جی رپورٹ کے مطابق 22-2021 کی آبکاری پالیسی کے سبب دہلی حکومت کو مجموعی طور پر 2 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ اس کی وجہ کمزور پالیسی فریم ورک سے لے کر نامناسب عمل درآمد سمیت کئی اہم عناصر ہیں۔

دہلی اسمبلی میں جو سی اے جی رپورٹ پیش کی گئی ہے، اس میں لائسنس جاری کرنے کے طریقہ کار میں اصولوں کی خلاف ورزیوں کو بھی نشان زد کیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ آبکاری پالیسی بنانے کے لیے تبدیلی کا مشورہ دینے سے متعلق تشکیل ماہرین کے ایک پینل کی سفارشات کو اُس وقت کے نائب وزیر اعلیٰ اور آبکاری وزیر منیش سسودیا نے نظر انداز کر دیا تھا۔ اس رپورٹ میں 941.53 کروڑ روپے ریونیو کے نقصان کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’نان کنفرمنگ میونسپل وارڈس‘ میں شراب کی دکانیں کھولنے کے لیے وقت پر اجازت نہیں لی گئی۔ نان-کنفرمنگ علاقے وہ علاقہ ہیں جو شراب کی دکانیں کھولنے کے لیے اراضی استعمال کے پیمانوں کے موافق نہیں ہیں۔

وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا کی طرف سے پیش کی گئی سی اے جی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’آبکاری محکمہ کو ان (نان کنفرمنگ) علاقوں سے لائسنس فیس کی شکل میں تقریباً 890.15 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے، کیونکہ ان علاقوں کے سرینڈر ہونے اور محکمہ کی طرف سے پھر سے ٹنڈر جاری کرنے میں ناکامی کے سبب ایسا ہوا۔‘‘ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ کووڈ وبا سے متعلق بند کے سبب لائسنس یافتہ لووں کو عارضی چھوٹ کے سبب 144 کروڑ روپے ریونیو کا بھی نقصان ہوا۔

اس رپورٹ کو پیش کیے جانے کے بعد اسمبلی اسپیکر وجیندر گپتا نے کہا کہ ’’یہ جان کر حیرانی ہوتی ہے کہ 18-2017 کے بعد سی اے جی رپورٹ اسمبلی میں پیش ہی نہیں کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں سابقہ اپوزیشن لیڈر یعنی میں نے اور 5 دیگر اپوزیشن لیڈران نے صدر جمہوریہ، اسمبلی اسپیکر، وزیر اعلیٰ اور چیف سکریٹری سے رپورٹ پیش کرنے کی گزارش کی تھی۔ ریاست کی مالی حالت جاننے کے لیے یہ بہت ضروری تھا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’بدقسمتی سے سی اے جی رپورٹ پیش نہیں کی گئی اور گزشتہ حکومت نے آئین کی خلاف ورزی کی۔ ہائی کورٹ نے سی اے جی رپورٹ کو لے کر بے حد سنگین تبصرے کیے تھے۔ اس کو پیش کرنے میں لاپروائی کی گئی۔ ایل جی کے پاس وقت رہتے رپورٹ کو نہیں بھیجا گیا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *