مجھے تو اس کی سزا ملی ہے کہ میری کوئی خطا نہیں ہے۔ تلنگانہ میں کتے کاٹنے کے بے شمار واقعات

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی آئی آئی ایس‘پی ایچ ڈی
ـCell : 9705170786

جرنلز م کے ایک طالب علم ہونے کے ناطے بہت زمانے تک یہی پڑھتا رہا اور سنتا رہا کہ اگر کسی شخص کو کتا کاٹتا ہے تو یہ نیوز نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص کسی کتے کو کاٹ لیتا ہے تو وہ نیوز ہوتی ہے۔لیکن آج ہر ٹی وی چینل اور اخبار میں کتے کاٹنے کے واقعات کی بہتات ہے۔بڑے افسو کی بات یہ ہے کہ تلنگانہ میں پچھلے کچھ مہینوں سے کتے کاٹنے کے سینکڑوں واقعات کا لا متناہی سلسلہ جاری ہے ۔جس کی وجہ سے کئی معصوم شہریوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑ رہا ہے۔ تلنگانہ کا شاید ہی کوئی شہر یاگاؤں ہوگا جہاں آوارہ کتوں کے کاٹنے سے انسانوں کی قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ حکومت کے بے شمار دعوؤں کے باوجود ان واقعات میں کمی نہیں آئی ہے۔

بر حق ہے اور مرنے کا ایک دن معین ہے لیکن انتہائی شرم اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے سینکڑوں غیر فطری واقعات ہماری ریاست میں وقوع پذیر ہو رہے ہیں ۔اگر ان کی تحقیقات کی جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہماری ریاستی حکومت اور خاص طور پر محکمہ صحت کے عہدیدار سو رہے ہیں۔اس کے بر خلاف پاگل کتے نا صرف جاگ رہے ہیں بلکہ اپنے زہریلے دانتوں سے شہریوں کی جان لے رہے ہیں۔

تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ریاست بھر میں پچھلے چند سالوں میں کتے کاٹنے کے لگ بھگ دیڑھ لاکھ واقعات پیش آئے ہیں۔اتنے ہی واقعات افسوس کے اظہار کے لئے کچھ کم نہ تھے کہ کچھ ایسی اندوہ ناک باتیں بھی سامنے آئی ہیں جہاں کتوں نے سرکاری دواخانوں سے نو مولود بچوں کوگھسیٹ کر باہر پھینک دیا۔عام آدمی ہی نہیں بلکہ پولیس کے جوان بھی کتوں کے شکار بنے ہیں۔

ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے کہ محکمہ صحت کے ایک ترجمان نے یہ اعلان کیا تھا کہ ریاست میں کتے کاٹنے کی دوا کی کوئی قلت نہیں ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ متاثرہ شخص کو مناسب مقدار میں دوا نہ ملنے کی وجہ سے اموات ہو رہی ہیں۔محبوب نگر سے تعلق رکھنے والا سات سالہ بچہ اس لئے فوت ہوا کیوں کہ اسے مناسب مقدار میں انجکشنس نہیں دئیے جا سکے۔ فیور ہاسپٹل کے سپریٹنڈنٹ کا یہ کہنا تھا کہ یہ لڑکا کتے کے کاٹنے کے چار مہینے بعد فوت ہوا کیوں کہ اس کے ماں باپ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ کتنے انجکشن لئے جانے تھے اور وہ ہسپتال بھی جہاں اس کا ابتدائی علاج کیا گیا وہ بھی غیر تربیت یافتہ اسٹاف کی وجہ سے صحیح ڈھنگ سے کام نہ کر پایا۔ جانوروں کا تحفظ کرنے والی مختلف تنظیموں، شخصیتوں اور اداروں کو اپنے ساتھی انسانوں کی زندگیوں سے پیار کم اور جانوروں سے انسیت زیادہ ہے ۔

جب بھی ان آوارہ کتوں یا پھر آوارہ بندروں کے خلاف کاروائی کی بات کی جاتی ہے یہ لوگ برہم ہو جاتے ہیں اور بڑے زور و شور کے ساتھ اس کی مخالفت میں لگ جاتے ہیں۔جس سے ہم سب کو یہ سوچنے پر مجبور ہو جانا پڑتا ہے کہ یہ لوگ انسانی برادری سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر جانوروں سے ان کا کوئی خاص رشتہ ہے۔تلنگانہ میں حالات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ ریاست کے Human Rights Commissionکواس معاملہ میں دخل دینا پڑ رہا ہے۔

کمیشن نے ریاستی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ کتے کاٹے کے واقعات سے متعلق رپورٹ پیش کرے۔ریاستی حکومت نے کئی بار یہ کہا ہے کہ کتے کاٹے کی ویاکسن کی سرکاری دواخانوں میں کوئی کمی نہیں ہے لیکن اس کے بر خلاف دواخانوں میں یہ ادویات بہت کم ہیں یا پھر نہ ہو نے کے برابر ہیں۔ دونوں شہروں میں کتے کاٹے کے روزانہ لگ بھگ 50 واقعات ریکارڈ ہو رہے ہیں۔شہری علاقوں میں تو کچھ حد تک ان واقعات سے متاثر ہونے والوں کا علاج ہو ہی جاتا ہے لیکن دیہی اور نیم شہری علاقوں میں صورت حال بہت ہی تشویش ناک ہے۔

حکام اگر اس جانب سنجید گی سے توجہ نہ کریں تو ہمیں ڈر ہے کہ کتے کاٹنے کے واقعات سے انسانوں کے صحت مندانہ وجود کو خطرہ لا حق ہوجائے گا۔قیامت کے کئی آثار ہیں جس میں سب سے بڑا Indication یہ ہے کہ لوگوں کی اموات غیر فطری انداز میں ہونگی۔کتے کے کاٹے سے مرنا بھی ایک غیر فطری ہلاکت کے سوا کچھ بھی نہیں۔کیا اب بھی ہماری سرکار ، ہماری بلدیات، اور ہمارے رضاکار ادارے بیدار نہیں ہوں گے؟ آخر یہ کب جاگیںگے ؟

اگر ان آوارہ کتوں کی کتا گیری ختم نہیں کی جائے گی تو وہ دن دور نہیں جب لوگ شیروں سے زیادہ ان کتوں سے گھبرانے لگیںگے اور اس شخص کوبے حد بہادر مانا جائے گا جو ان کتوں سے نہیں ڈرے گا۔یہ بات نہ تو مزاح کی ہے اور نہ ہی طنز کی ، بات سچی ہے ، بات اچھی ہے اور توجہ چاہتی ہے کیوں کہ اس بات کوباتوں ہی باتوں میںنہیںاُڑا یا جا سکتا کیوں کہ معصوم بچوں کی زبان سے شاید یہ بات نکل رہی ہوگی کہ
بہت دنوں سے یہ سن رہے تھے سزا وہ دیتے ہیں ہر خطا کی
مجھے تو اس کی سزا ملی ہے کہ میری کوئی خطا نہیں ہے
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *