دہلی اسمبلی انتخاب: مسلم اکثریتی سیٹ مصطفیٰ آباد میں بی جے پی نے کس طرح رقم کی تاریخ، کون بنا عآپ کا دشمن؟

مصطفیٰ آباد سیٹ پر مسلمانوں کی آبادی تقریباً 40 فیصد ہے، اس کے بعد ٹھاکر اور دلت ووٹرس ہیں۔ ٹھاکر یہاں تقریباً 12 فیصد اور دلت تقریباً 10 فیصد ہیں۔

بی جے پی کا پرچم، تصویر آئی اے این ایسبی جے پی کا پرچم، تصویر آئی اے این ایس
بی جے پی کا پرچم، تصویر آئی اے این ایس
user

دہلی اسمبلی انتخاب میں بی جے پی نے فتح حاصل کر نہ صرف 26 سال بعد حکومت سازی کی طرف قدم بڑھا دیا ہے، بلکہ کچھ اسمبلی سیٹوں پر پارٹی امیدواروں نے حیرت انگیز فتح حاصل کی ہے۔ مسلم اکثریتی سیٹ مصطفیٰ آباد میں تو بی جے پی امیدوار موہن سنگھ بشٹ نے جیت کا پرچم لہرا کر نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ موہن سنگھ نے اس سیٹ پر عآپ امیدوار عدیل احمد خان کو 17578 ووٹوں سے ہرایا۔

مصطفیٰ آباد سیٹ پر مسلمانوں کی آبادی تقریباً 40 فیصد ہے اور ہندوؤں کی 60 فیصد۔ ہندوؤں میں بھی الگ الگ طبقات ہیں جن کا رجحان الگ الگ پارٹیوں کی طرف رہتا ہے۔ خاص طور سے ٹھاکر اور دلت ووٹرس کی تعداد اس سیٹ پر اچھی خاصی ہے۔ ٹھاکر یہاں تقریباً 12 فیصد اور دلت تقریباً 10 فیصد ہیں۔ اس اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر بی جے پی امیدوار کی کامیابی حیران کرنے والی ضرور ہے، لیکن عآپ کا کھیل بگاڑا کانگریس اور اسدالدین اویسی کی اے آئی ایم آئی ایم نے۔

دراصل اے آئی ایم آئی ایم امیدوار محمد طاہر حسین کو 33474 اور کانگریس امیدوار علی مہدی کو 11763 ووٹ ملے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عآپ امیدوار کو طاہر حسین نے بہت زیادہ نقصان پہنچایا، کیونکہ مسلم ووٹرس طاہر کے تئیں ہمدردی دکھاتے ہوئے کافی حد تک پولرائز ہو گئے۔ پھر بھی بی جے پی امیدوار موہن بشٹ کی اس کامیابی کے لیے مجموعی طور پر 5 بڑی وجوہات سامنے آ رہی ہیں۔ آئیے ان وجوہات پر ایک سرسری نظر ڈالیں۔

  1. امیدوار کے سلیکشن میں احتیاط: مصطفیٰ آباد سیٹ سے جگدیش پردھان بی جے پی کے مضبوط امیدوار تھے، لیکن آخر وقت میں بی جے پی نے یہاں سے موہن سنگھ بشٹ کو میدان میں اتارا۔ بشٹ کراول نگر سے رکن اسمبلی تھے، جن کی سیٹ ہندو لیڈر کپل مشرا کو دے دی گئی۔ بشٹ کا نیٹورک مصطفیٰ آباد سیٹ پر مضبوط رہا ہے۔ بشٹ کی شبیہ زمینی لیڈر کی ہے، جس کا فائدہ انتخاب میں بی جے پی کو ملا۔

  2. طاہر حسین اور اویسی کی انٹری: مصطفیٰ آباد سیٹ سے عآپ نے عدیل احمد خان کو امیدوار بنایا تھا۔ عدیل سابق رکن اسمبلی حسن احمد کے بیٹے ہیں۔ آخری وقت میں اویسی نے یہاں سے طاہر حسین کو اتار دیا۔ طاہر دہلی فسادات کے ملزم ہیں۔ پرچہ داخل کرنے کے بعد طاہر انتخابی تشہیر کے لیے اجازت لینے سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ سپریم کورٹ سے اجازت ملی تو وہ میدان میں اتر گئے۔ طاہر کے میدان میں اترنے سے پورا الیکشن ہندو مقابلہ مسلم ہو گیا، یعنی مسلم ووٹ بڑی تعداد میں طاہر کی طرف چلا گیا۔

  3. پانچ مسلم امیدواروں کا انتخابی میدان میں ہونا: مصطفیٰ آباد سیٹ سے 5 مسلم امیدوار میدان میں اتارے گئے، جس کا خمیازہ سیدھے طور پر عآپ کو اٹھانا پڑا۔ کانگریس کے علی مہدی بھلے چوتھے نمبر پر رہے، لیکن وہ بھی مسلم ووٹوں کا بڑا حصہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ دوسری طرف ایک کو چھوڑ دیا جائے تو کسی بھی ہندو امیدوار کو ایک ہزار سے زیادہ ووٹ نہیں ملے۔

  4. ڈور ٹو ڈور مہم پر توجہ: بی جے پی نے یہاں ڈور ٹو ڈور مہم پر توجہ دی۔ سابق مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر یہاں محاذ سنبھال رہے تھے۔ موہن سنگھ بشٹ کی زمینی پکڑ اور انوراگ کی محاذ بندی کی وجہ سے بی جے پی مسلم اکثریتی مصطفیٰ آباد سیٹ پر بڑی جیت درج کرنے میں کامیاب رہی۔

  5. عآپ کو ٹکٹ بدلنا پڑا بھاری: 2020 میں یہاں پر حاجی یونس نے بی جے پی کے جگدیش پردھان کو ہرا دیا تھا۔ اس مرتبہ عآپ نے یونس کا ٹکٹ بدل کر عدیل کو میدان میں اتار دیا۔ عدیل ہندو ووٹرس میں سیندھ ماری نہیں کر پائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سیٹ پر عآپ کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *