8 فروری 1979 کو فضائیہ کے افسروں کی امام خمینی (رح) کی تاریخی بیعت، ایک ہوا باز کی زبانی

مہر خبررساں ایجنسی،سیاسی ڈیسک؛ 8 فروری 1979 کا دن ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا، جب شاہی فضائیہ کے افسران نے امام خمینیؒ کے ہاتھوں بیعت کرکے انقلاب کو فتح کے قریب پہنچا دیا اور شاہی حکومت کے آخری وزیر اعظم، شاپور بختیار کی امیدوں کو خاک میں ملا دیا۔

6 اور 7 فروری کو فضائیہ کے رہائشی علاقوں میں ایسے پمفلٹ تقسیم کیے گئے جن میں 8 فروری کی صبح 6 بجے تہران کے خیابان ایران میں جمع ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کے جواب میں شاہی فوج کے خفیہ ادارے نے فضائیہ کے عملے کو کسی بھی قسم کے اجتماع سے باز رہنے کی ہدایت دی اور 9 فروری کو شاہ کے حق میں ایک ریلی میں شرکت کا حکم دیا۔

8 فروری کی صبح کسی کو توقع نہ تھی کہ اتنی بڑی تعداد میں فضائیہ کے افسران امام خمینی کی بیعت کے لیے پہنچیں گے۔ لیکن جیسے ہی وقت قریب آیا، پورا خیابان ایران نیلے رنگ کی وردیوں سے بھر گیا۔ کچھ افسران پہلے عام لباس میں آئے اور وہیں وردی پہنی۔ ان کے ہاتھوں میں ایسے بینرز اور کتبے تھے جن پر درج تھا: “ہم طاغوت کو چھوڑ کر قوم سے جا ملے، ہم امام خمینی کی فوج کا حصہ ہیں۔

8 فروری 1979 کو فضائیہ کے افسروں کی امام خمینی (رح) کی تاریخی بیعت، ایک ہوا باز کی زبانی

اس تاریخی بیعت کی تقریب کچھ تاخیر کے بعد صبح 10 بجے شروع ہوئی، اور اس نے انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کو مزید یقینی بنا دیا۔

8 فروری کو تہران میں امام خمینیؒ کی موجودگی میں فضائیہ کے افسروں نے ایک فوجی پریڈ کے ذریعے اپنی وفاداری کا اعلان کیا۔ تقریب کا آغاز اس وقت ہوا جب فضائیہ کے کمانڈر نے ایک دستی مائیکروفون کے ذریعے امام خمینیؒ کو “کمانڈر انچیف” کے لقب سے مخاطب کرتے ہوئے رسمی فوجی پریڈ کی اجازت طلب کی۔ امام خمینیؒ کی اجازت کے بعد پریڈ کا آغاز ہوا۔

پریڈ کے دوران، فضائیہ کے ایک سپاہی نے اعلامیہ پڑھ کر سنایا، جس کا متن درج ذیل ہے:

رہبر کبیر حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی کی قیادت اور مظلوم ایرانی قوم کی حق طلبی کی حمایت میں، ہم شاہرخی ہمدان ائیربیس کے افسران وحدتی دزفول، بندر عباس، بوشہر، اصفہان، شیراز، ہوانیروز اصفہان اور کرمانشاہ کے ساتھ ہم آواز ہوکر شاہی حکومت کے خاتمے اور ایرانی قوم کی آزادی کے لیے آخری قطرۂ خون تک جدوجہد کریں گے۔ ہم درج ذیل نکات پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے:

1. ایرانی عوام کے پیسوں سے خریدے گئے ساز و سامان اور آلات کی حفاظت کے لئے اپنی جان بھی قربان کریں گے۔

2. مشیروں کے بھیس میں ایران میں موجود امریکی سی آئی اے کے ایجنٹوں کو ملک سے نکال دیں گے۔

3. اگر شاہی حکومت کے ایجنٹوں کی طرف سے کوئی بغاوت کی کوشش کی گئی تو ہم اپنی تمام تر قوت سے اس کا مقابلہ کریں گے۔

یہ حلف نامہ امام خمینیؒ اور عوام کے سامنے پڑھا گیا، جس نے ایرانی انقلاب کی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش لمحہ رقم کیا۔ اس واقعے کے بعد شاہی حکومت کا سقوط مزید نزدیک ہوا اور ایرانی عوام کی جدوجہد کو تقویت ملی۔

بیعت کی تقریب کے بعد، امام خمینیؒ نے فضائیہ کے اہلکاروں کو امام عصر کے سپاہی قرار دیتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا اور اپنے خطاب میں کہا کہ جیسا کہ آپ نے خود اعتراف کیا، اب تک آپ طاغوت کے زیر سایہ تھے، جس نے ہمارے ملک کو تباہ کیا۔ ہمیں غیر ملکیوں کا غلام بنایا اور ہمارے قومی خزانے کو خالی کردیا۔ مگر آج آپ قرآن اور امام عصرؑ کی خدمت میں آچکے ہیں۔ قرآن وہ الہی قانون ہے جو پوری انسانیت کو نجات دیتا ہے۔ جو اس کی پناہ میں آ جائے، دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوگا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہم سب مل کر ان طاغوتی عناصر کو مکمل طور پر ختم کرسکیں اور ایک اسلامی حکومت قائم کریں، جہاں ہماری سرزمین ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہو، جہاں ہمارا مقدر امریکی یا سوویت سفارت خانے میں نہیں بلکہ ہم خود طے کریں۔ ہم ایک آزاد فوج چاہتے ہیں جس پر نہ اسرائیل کا اثر ہو اور نہ امریکہ کا تسلط۔

8 فروری 1979 کو فضائیہ کے افسروں کی امام خمینی (رح) کی تاریخی بیعت، ایک ہوا باز کی زبانی

درود ہو آپ پر، اے فضائیہ کے جانبازو! آپ نے خدا کی نعمت کو پہچانا اور قرآن کی آغوش میں آگئے۔ درود ہو آپ پر، جنہوں نے طاغوتی حکومت کو چھوڑ کر الہی حکومت کو قبول کیا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دوسرے فوجی اہلکار بھی اپنے فرائض کو پہچانیں اور ملت سے جاملیں۔ ہم آپ سب کے لیے آزادی اور خودمختاری چاہتے ہیں تاکہ ملک کی تقدیر ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہو اور کوئی غیر ملکی طاقت ہمارے امور میں مداخلت نہ کرے۔ اللہ ہم سب کی مدد کرے۔ طاغوت کی جگہ ایک اسلامی اور انسانی عادل حکومت کی تشکیل تک یہ جدوجہد جاری رہنا چاہئے۔

ائیرکموڈر سلیمان جوکار، جو 8 فروری 1979 کو امام خمینیؒ سے بیعت کرنے والے افسران میں شامل تھے، 1958 میں ایران کے شہر ملایر کے گاؤں مانیزان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1975 میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایرانی فضائیہ میں شمولیت اختیار کی۔ ابتدائی فوجی تربیت کے بعد انہوں نے الیکٹرانکس میں مہارت حاصل کی۔ انہوں نے فوج کے لاجسٹک اور سپورٹ یونٹ میں شامل ہو گئے اور اپنی باقاعدہ سروس کا آغاز کیا۔

سلیمان جوکار کہتے ہیں کہ 1979 میں جب ایران میں اسلامی انقلاب کے آثار نمایاں ہونے لگے تو وہ اور ان کے ساتھی خفیہ طور پر عوامی مظاہروں میں شریک ہونے لگے۔ وہ تہران، تبریز اور قم جیسے شہروں میں مظاہروں میں شامل ہوتے، لیکن شناخت سے بچنے کے لیے سادہ لباس پہنتے۔ ایرانی فضائیہ میں افسروں اور سپاہیوں کے درمیان عدم مساوات اور ناانصافی نمایاں تھی۔ کھانے اور دیگر سہولیات میں امتیازی سلوک کیا جاتا تھا جس کے خلاف انہوں نے احتجاج کیا۔ یہ مظاہرے بڑھتے بڑھتے بھوک ہڑتال کی شکل اختیار کر گئے۔

فضائیہ کے بعض افسران نے احتجاج کرنے والوں کو دھمکیاں دیں لیکن ان کے حوصلے پست نہ ہوئے۔ وہ خفیہ طور پر امام خمینیؒ کے بیانات اور اعلامیے پڑھتے اور اپنے ساتھیوں میں تقسیم کرتے۔ چند دن بعد فوجی حکام نے فضائیہ کے اہلکاروں کے لیے دوپہر کا کھانا فراہم کرنے کا سلسلہ بھی بند کردیا۔ اس اقدام نے ان کے احتجاج کو مزید تقویت دی اور وہ مختلف طریقوں سے اپنے انقلابی جذبے کا اظہار کرنے لگے۔ ہمارا ایک اعلی افسر ہم سے رابطے میں تھا اس وجہ سے ہمارے بارے میں رپورٹ حکام بالا تک نہیں پہنچتی تھی اور ہم ہر روز انقلابی اقدامات انجام دیتے تھے۔

امام خمینیؒ کی وطن واپسی اور بہشت زہرا میں ان کی تاریخی تقریر جس میں انہوں نے فوج کو عوام کے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دی، سلیمان جوکار اور ان کے ساتھیوں کے لیے فیصلہ کن لمحہ ثابت ہوئی۔ وہ اور دیگر 6 افسران ایک منظم حکمت عملی کے تحت 8 فروری کو امام خمینیؒ کے پاس پہنچے اور ان سے بیعت کرکے انقلاب اسلامی کی کامیابی کی راہ ہموار کی۔ یہ بیعت وہ لمحہ تھا جب ایرانی فوج کے ایک اہم حصے نے شاہی حکومت سے علیحدگی اختیار کی اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کو یقینی بنایا۔

سلیمان جوکار نے کہا کہ اس دور میں سب سے بڑا مسئلہ مناسب مواصلاتی ذرائع کی عدم دستیابی تھی۔ بالآخر ہمیں اپنے ہی دفتر میں کام کرنے والے چھ ساتھیوں کے ذریعے معلوم ہوا کہ ہمیں امام خمینیؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر پریڈ کرنا ہے۔ ہمارے دو ساتھی، محمدرضا دین وری اور طیار رفیعی، اس اقدام میں پیش پیش تھے اور سارا منصوبہ ترتیب دے رہے تھے، لیکن انہیں بعد میں مختلف گروہوں سے وابستگی کے الزام میں گرفتار کرکے فضائیہ سے برطرف کردیا گیا۔ ہماری 8 فروری کی تقریب میں شرکت اور ملاقات کی جگہ بہارستان اسکوائر مقرر کی گئی۔ ہم نے گھروں میں اپنی وردی پہن لی، لیکن اپنی فوجی جیکٹ اور کیپ بیگ میں رکھ کر ساتھ لے گئے تاکہ دوران سفر کوئی شک نہ کرے۔ جب تمام افسران بہارستان اسکوائر میں جمع ہوگئے تو ہم نے جیکٹ اور کیپ پہن کر انتہائی منظم انداز میں امام خمینیؒ کی خدمت میں رفاہ اسکول میں حاضر ہوئے۔ اس تاریخی لمحے کو روزنامہ کیہان کے فوٹوگرافر حسین پرتوی نے کیمرے میں قید کر لیا، اور بعد میں وہ تصویر اخبار میں شائع ہوئی۔

ہمیں شاہی حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے میں کوئی خوف نہیں تھا۔ حالانکہ میرا چار ماہ کا بچہ تھا اور میری اہلیہ تہران میں بالکل اکیلی تھیں لیکن میں نے اس تحریک میں بھرپور شرکت کی۔ ہمارا مقصد صرف اسلامی انقلاب کی کامیابی تھا، جو آخرکار 11 فروری کو کامیاب ہوگیا۔ 8 فروری کی یہ بیعت پہلوی حکومت کے لیے ایک کاری ضرب ثابت ہوئی جس کے بعد شاہی حکمرانوں کو اپنی شکست تسلیم کرنی پڑی اور وہ عوام کے سامنے بے بس ہوگئی۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *