مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: آیت اللہ العظمی سید روح اللہ موسوی خمینی ایک مسلمان عالم دین اور مرجع تقلید تھے۔ وہ 1979 میں ایران میں آنے والے کے اسلامی انقلاب کے رہنما تھے جس نے ایران کے آخری شاہ محمد رضا پہلوی کو شاہی تخت سے نیچے اتارا۔
اسلامی انقلاب کے بعد امام خمینی (رہ) وفات تک ایران کے رہبر معظم انقلاب اسلامی رہے جو نئے اسلامی جمہوریہ ایران کے سیاسی نظام میں سب سے اہم شخصیت تھے۔
امام خمینی (رہ) مسلمانوں کے مرجع تقلید تھے۔ ایران میں انہیں آیت اللہ العظمی نہیں بلکہ باقاعدہ طور پر امام کے طور پر پکارا جاتا تھا۔ ان کے حامیوں نے اسی رسم و رواج کو اپنایا۔ امام خمینی ایک انتہائی اثر و رسوخ رکھنے والے اور انقلابی اسلامی سیاسی مفکر بھی تھے، جنہیں ولایت فقیہ کے نظریے کے خالق کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے “فقیہ کی سرپرستی”۔
ولادت اور بچپن
امام خمینی (رہ) 20 جمادی الثانی 1320 ھجری بمطابق 24 ستمبر 1902 کو ایران کے شہر خمین میں پیدا ہوئے۔
چونکہ ان کی پیدائش حضرت فاطمہ الزہرا علیہا السلام کی ولادت کے دن ہوئی تھی اس لیے ان کی سالگرہ قمری کیلنڈر کے مطابق خصوصی اہمیت کے ساتھ منائی جاتی ہے۔
ان کے والد سید مصطفی موسوی جنہوں نے نجف میں اسلامی علوم حاصل کیے، آیت اللہ مرزا شیرازی کے معاصر تھے۔ خمین کے لوگ اپنے مذہبی مسائل کے لیے ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ امام خمینی (رہ) کی ولادت کے پانچ ماہ بعد مقامی ظالم گورنر کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ امام خمینی (رہ) اپنی والدہ، حاجیہ آغا، اور اپنی پھوپھی صاحبہ خانم کی نگرانی میں 15 سال تک پروان چڑھے۔
امام خمینی (رہ) ایک مذہبی اور سادات خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کا شجرہ نسب ساتویں امام حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے ملتا تھا۔
سید احمد موسوی امام خمینی (رہ) کے دادا تھے جبکہ مرزا احمد مجتہد خونساری آپ کے نانا تھے جن کے فتوے نے شاہ کی طرف سے ایک برطانوی کمپنی کو دی گئی تمباکو پر اجارہ داری کے معاہدے کو منسوخ کروا دیا تھا۔
تعلیم
چھ سال کی عمر میں امام خمینی (رہ) نے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر اور مقامی اسکول میں مولانا عبدالقاسم اور شیخ جعفر کی نگرانی میں حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے بڑے بھائی آیت اللہ پسندیدہ کی سرپرستی میں 18 سال کی عمر تک تعلیم حاصل کرتے رہے۔ امام خمینی (رہ) کو اعلی تعلیم کے لئے اصفہان بھیجنے کا انتظام کیا گیا تاہم آپ نے اراک کا رخ کیا جہاں آیت اللہ العظمی شیخ عبدالکریم حائری کی سرپرستی میں حوزہ علمیہ قائم تھا۔
1921 میں امام خمینی نے اراک میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔ اگلے سال آیت اللہ حائری یزدی نے حوزہ علمیہ کو قم منتقل کردیا اور اپنے شاگردوں کو قم آنے کی دعوت دی۔ امام خمینی (رہ) نے اس دعوت کو قبول کیا اور قم منتقل ہوئے۔ قم میں آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا یہاں تک کہ عراق کے مقدس شہر نجف جلا وطن کردیا گیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے فقہ، فلسفہ، اور تصوف پر کئی سال تدریس کی اور ان موضوعات پر متعدد کتابیں لکھیں۔
امام خمینی (رہ) 1963 میں آیت اللہ العظمی سید حسین بروجردی کی وفات کے بعد مرجع تقلید بن گئے۔
تدریس
امام خمینی (رہ) نے کئی سالوں تک قم کے حوزہ علمیہ میں فقہ، اصول فقہ، فلسفہ، تصوف اور اخلاقیات کا درس دیا۔ حوزہ علمیہ نجف اشرف میں انہوں نے تقریبا 13 سال تک فقہ اور دیگر اسلامی موضوعات کی تعلیم دی، اور مسجد الشیخ الاعظم الانصاری میں تدریس کی۔
انہی سالوں میں انہوں نے ولایت فقیہ کی نظریاتی بنیاد کو پہلی بار متعدد کلاسوں میں پڑھایا۔ ان کے شاگردوں کے مطابق ان کی کلاس حوزہ علمیہ نجف اشرف کی اہم کلاسوں میں سے ایک تھی۔ بعض اوقات ان کے کلاس میں شریک ہونے والے افراد کی تعداد 1200 تک پہنچتی تھی جن میں درجنوں مشہور ہم عصر مجتہدین بھی شامل تھے۔
جلاوطنی
امام خمینی (رہ) نے 14 سال سے زائد کا عرصہ جلاوطنی میں گزارا جس میں سے زیادہ عرصہ عراق کے مقدس شہر نجف میں ابتدا میں گزرا۔ 4 نومبر 1964 کو امام خمینی (رہ) کو ترکی بھیجا گیا، جہاں وہ شہر برسا میں ایک سال سے کم وقت تک مقیم رہے۔ ترک کرنل علی سیٹینر نے امام خمینی (رہ) کی میزبانی کی۔ اکتوبر 1965 میں انہیں عراق کے شہر نجف دوبارہ منتقل ہونے کی اجازت ملی جہاں وہ 1978 تک مقیم رہے۔ اس کے بعد عراقی نائب صدر صدام حسین نے انہیں وہاں سے نکال دیا۔ پھر فرانس کے شہر نوفل لے شاتو گئے۔
1970 کے اوائل میں امام خمینی (رہ) نے نجف میں اسلامی حکومت پر لیکچر کا ایک سلسلہ شروع کیا جو بعد میں کتاب کی شکل میں شائع ہوئی جسے مختلف عنوانات سے یاد کیا گیا جیسے “اسلامی حکومت” یا “ولایت فقیہ” جس میں انہوں نے اسلامی حکومت کے بارے میں نظریات کو پیش کیا۔
اس دوران امام خمینی (رہ) نے اپنے نظریات عوامی سطح پر پھیلانے سے گریز کیا اور اگلے دس سالوں میں اسلامی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ ان کی تقاریر کی کیسٹ کاپی، جن میں شاہ کو “یہودی ایجنٹ” جیسے شدید الفاظ میں ملامت کی جاتی تھی، ایران کی مارکیٹوں میں عام ہوگئیں اور شاہ اور اس کی حکومت کی حقیقت کو بے نقاب کرنے میں مدد فراہم کی۔ جیسے جیسے احتجاج بڑھا، امام خمینی (رہ) کی اہمیت بھی بڑھتی گئی۔ جلاوطنی کے آخری مہینوں میں امام خمینی (رہ) سے مسلسل صحافیوں، حامیوں اور اہم شخصیات کی ملاقات ہونے لگی۔
ایران واپسی
16 جنوری 1979 کو ایران سے شاہ کے فرار ہونے کے صرف دو ہفتے بعد امام خمینی (رہ) 1 فروری 1979 کو ایران واپس پہنچے۔ اس موقع پر انقلابیوں کی جانب سے ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ ایک تخمینے کے مطابق استقبال کرنے والوں کی تعداد کم از کم تین ملین تھی۔
ابتداء میں یہ منصوبہ بنایا گیا تھا کہ آیت اللہ خمینی (رہ) 26 جنوری کو ایران پہنچیں گے لیکن اس وقت کے وزیراعظم شاپور بختیار نے اعلان کیا کہ ہوائی اڈے بند کردیے جائیں گے۔ پیرس سے امام خمینی (رہ) نے اعلان کیا کہ وہ ہوائی اڈے کھلنے کے فورا بعد واپس آئیں گے۔ ہوائی اڈوں کی بندش کی وجہ سے بڑے پیمانے پر احتجاج اور ہڑتالیں شروع ہوگئیں۔ صرف تہران میں 28 افراد شہید ہوئے۔ 29 جنوری کو ہوائی اڈے دوبارہ کھول دیے گئے۔
عالمی یوم القدس
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے چند ماہ بعد رمضان 1399 ھجری بمطابق اگست 1979 میں امام خمینی (رہ) نے رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر منانے کا اعلان کیا اور دنیا کے مسلمانوں سے کہا کہ وہ فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی ظاہر کریں اور ان کے حقوق کا دفاع کریں۔ اس کے بعد سے ایران اور دیگر ممالک میں جمعہ الوداع کو فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی اور حمایت کے اظہار کے لیے بڑے مارچ اور جلسے منعقد کیے جاتے ہیں۔ یہ دن عالمی یوم القدس کے طور پر جانا جاتا ہے۔
امام خمینی (رہ) کی وفات
امام خمینی (رہ) 89 سال کی عمر میں 3 جون 1989 کو کینسر کے باعث انتقال کر گئے۔ ایرانیوں کی بڑی تعداد نے امام خمینی (رہ) کی وفات پر سوگ منایا اور پورے ملک میں سڑکوں پر نکل آئے۔ امام خمینی (رہ) کی تدفین میں پورے ملک سے 10 ملین سے زائد افراد نے شرکت کی، جو کہ دنیا میں تشییع جنازہ کے بڑے اجتماعات میں سے ایک تھا۔
امام خمینی (رہ) کی وفات کے بعد 4 جون 1989 کو آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو آئین کے مطابق مجلس خبرگان نے ان کا جانشین منتخب کیا۔
امام خمینی (رہ) کی وفات کے دن ایران میں ہر سال 4 جون کو عام تعطیل کی جاتی ہے۔ اس دن سپریم لیڈر خصوصی خطاب کرتے ہیں۔