[]
اقوام متحدہ: افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے کہا کہ پاکستان، سعودی عرب، قطر اور انڈونیشیا کے مذہبی اسکالرز نے طالبان حکمرانوں پر زور دیا ہے کہ وہ خواتین پر سے پابندی ہٹائیں کیونکہ اسلام خواتین کو اسکول جانے اور نقل و حرکت یا کام پر پابندیاں عائد نہیں کرتا ہے۔ اخبار ‘ڈان’ نے جمعرات کو اپنی رپورٹ میں یہ اطلاع دی۔
یو این نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یو این اے ایم اے کے قائم مقام سربراہ مارکس پوجٹیل نے کہا کہ اقوام متحدہ کو بڑے چیلنجز کی جگہوں پر زیادہ مضبوط ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کو افغانستان میں بنیادی حقوق خصوصاً خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی بحالی اور تحفظ پر توجہ دینی چاہیے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا طالبان کو پیغام پہنچانے میں اسلامی ممالک سے تعاون حاصل کیا گیا ہے، مسٹر پوزٹیل نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا ایک وفد یہاں آیا تھا اور طالبان حکمران کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ تعلیم اسلام کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفد میں پاکستان، سعودی عرب، قطر اور انڈونیشیا کے علماء شامل تھے اور اس سے قبل کے دورے میں ایک خاتون بھی علماء کے وفد کا حصہ تھیں۔
انہوں نے کہا کہ “اسلامی ممالک کو ممکنہ طور پر بہتر رسائی حاصل ہے اور وہ طالبان سے بات کرنے میں زیادہ معقول ہیں۔” ہم امید کرتے ہیں کہ ہماری تمام کوششیں آخر کار کامیاب ہوں گی۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اگست 2021 میں جب طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے تو افغانستان کا باقی دنیا سے عملاً رابطہ منقطع ہو گیا تھا اور انسانی حقوق پر مزید پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد اس کی تنہائی مزید گہری ہو گئی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی واپسی کے خدشے کے پیش نظر بین الاقوامی فنڈنگ روک دی گئی ہے اور اقوام متحدہ افغانستان میں دنیا کی آنکھ اور کان کے طور پر کام کر رہا ہے۔
مسٹر پوزٹیل نے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کوئی درمیانی بنیاد نہیں ہے اور ایسے فیصلے جو کہ جامع انسانی حقوق اور معاشرے میں خواتین کی شرکت کو محدود کرتے ہیں، جلد از جلد واپس لے لیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان اب بھی دنیا میں سب سے زیادہ افیون پیدا کرنے والا ملک ہے۔ تاہم طالبان حکمران حالات سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ “حال ہی میں پوست کی کاشت، پیداوار اور اسمگلنگ پر پابندی لگائی گئی ہے اور زمینی سطح سے ملنے والی رپورٹوں سے پوست کی کاشت میں کمی کا اشارہ ملتا ہے، جس کی ہم تعریف کرتے ہیں۔”