عربی گرائمر کے موجد مولیٰ علی رضہ چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

 

حیدرآباد 12جنوری(پریس ریلیز ) چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بتلایا کہ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضہ کا علمی مقام و مرتبہ، اُن کی قرآن فہمی، حقیقت شناسی اور فقہی صلاحیت تمام اولین و آخرین میں ممتاز و منفرد تھی۔ قدرت نے انہیں عقل و خرد کی اس قدر ارفع و اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا تھا کہ جو مسائل دوسرے حضرات کے نزدیک پیچیدہ اور لاینحل سمجھے جاتے تھے، انہی مسائل کو وہ آسانی سے حل کردیتے تھے۔ اکابر صحابہ کرام رضوان للہ علیہم اجمعین ایسے اوقات سے پناہ مانگتے تھے کہ جب کوئی مشکل مسئلہ پیش آجائے اور اس کے حل کے لیے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ رضہ موجود نہ ہوں۔

حضرت سعید بن المسیب علیہ السلام بیان کرتے ہیں:’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُس پیچیدہ مسئلہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تھے جسے حل کرنے کے لیے ابوالحسن علی ابن ابی طالب علیہ السلام نہ ہوں۔‘‘بعض اکابر صحابہ کرام رضوان للہ علیہم اجمعین نے شہادت دی کہ مولیٰ علی علیہ السلام علمِ ظاہر و باطن دونوں کے امین تھے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’بے شک علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے پاس قرآن کا علمِ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔‘‘

اُن کا بتایا ہوا مسئلہ اولوالعزم صحابہ رضوان للہ علیہم اجمعین کے نزدیک حرفِ آخر سمجھا جاتا تھا۔ سیدالمفسرین حبر الامۃ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس علیہ السلام سے حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

’’جب ہمیں کسی چیز کا ثبوت سیدنا علی علیہ السلام سے مل جائے تو پھر ہم کسی اور کی طرف رجوع نہیں کرتے۔‘‘ام المومنین سیدہ طیبہ طاہرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:’’حضرت علی علیہ السلام تمام لوگوں سے بڑھ کر سنت کا علم رکھنے والے ہیں۔‘‘یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ جو سنت کا سب سے بڑا عالم ہو وہی قرآن کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے۔ چنانچہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سب سے بڑے عالم کی شناخت یوں بیان فرمائی ہے:’’عنقریب کچھ لوگ آئیں گے جو تمہارے ساتھ متشابہاتِ قرآن میں بحث کریں گے، تم ان کا مواخذہ احادیث سے کرنا، بے شک اصحابِ حدیث سب سے بڑھ کر قرآن کریم کے عالم ہیں۔‘‘عبدالمالک بن ابی سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطا رضی اللہ عنہ سے پوچھا:

’کیا سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضوان للہ علیہم اجمعین میں سیدنا علی علیہ السلام سے بڑھ کر کوئی عالم تھا؟ انہوں نے کہا: نہیں، خدا کی قسم میں ایسے شخص کو نہیں جانتا۔‘‘یہی وجہ ہے کہ مولیٰ علی علیہ السلام کے سوا کسی شخص نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ’’ا س سے جو چاہو پوچھو وہ قرآن سے جواب دے گا‘‘ ایسا دعویٰ صرف انہوں نے ہی کیا۔ حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

’’سیدنا علی رضہ نے ارشاد فرمایا: لوگو تم مجھ سے سوال کرو! بخدا تم قیامت تک جس چیز کے متعلق بھی سوال کرو گے میں تمہیں بتائوں گا اور تم مجھ سے قرآن مجید کی بابت سوال کرو، بخدا قرآن مجید کی کوئی ایسی آیت نہیں مگر میں جانتا ہوں کہ وہ رات میں اتری یا دن میں، میدانوں میں نازل ہوئی یا پہاڑوں میں؟‘‘

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حکمت دس حصوں میں تقسیم کی گئی، نو حصے علی رضہ کو دیئے گئے اور ایک حصہ باقی تمام لوگوں کو دیا گیا۔‘‘حضرت سعید بن المسیب علیہ السلام فرماتے ہیں:’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضوان للہ علیہم اجمعین میں سے کسی شخص نے یہ دعویٰ نہیں کیا ’’سَلُوْنِی‘‘ (مجھ سے سوال کرو) ماسوا علی بن ابی طالب رضہ کے۔‘‘مولیٰ علی رضہ کی علمیت کا مقام کیوں نہ ہوتا جبکہ ان کی شان میں آیا ہے کہ وہ علم کا باب (دروازہ) ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں)۔‘‘سیدنا علی رضہ کے باب العلم ہونے کی قوی دلیل مجھ ایسے سادہ لوگوں کے لیے یہ بھی ہے کہ حضرت مولیٰ علی رضہ ایسے علم کے موجد ہیں جس کے بغیر کوئی انسان عالم ہو ہی نہیں سکتا۔ آج اگر کوئی انسان عالم ہے اور قرآن و حدیث کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو یہ صلاحیت صرف اسی علم کی بدولت ہے جس کے موجد باب العلم سیدنا علی المرتضیٰ رضہ ہیں اور وہ علم عربی گرائمر یعنی علمِ نحو ہے۔

جس شخص کو کسی بھی علم و فن سے کچھ تعلق ہو وہ جانتا ہے کہ کسی زبا ن کو سمجھنے کے لیے اس کی لغت کی معرفت کتنا ضروری ہوتی ہے پھر عربی لغت کی اہمیت تو محتاجِ بیان ہی نہیں۔ لغتِ عرب کی معرفت اتنا ضروری ہے جتنا کتاب و سنت کی معرفت ضروری ہے بلکہ قرآن وحدیث کا سمجھنا معرفتِ لغت پر موقوف ہے۔

قرآن کریم ہو، حدیث شریف ہو، کلامِ عرب ہو، اشعارِ عرب ہوں یا لغتِ عرب ہو، ان میں سے ہر ایک کا سمجھنا عربی گرائمر پر موقوف ہے۔ اسی لئے عربی گرائمر کے متعلق کہا گیا:’’علمِ صَرف تمام علوم کی ماں ہے اور علمِ نحو ان سب کا باپ ہے۔‘‘اور ان دونوں علوم کے موجد و موسس باب مدینۃ العلم سیدنا مولیٰ علی رضہ ہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے ہی ان دونوں علموں کے بنیادی قوانین املا کرائے اور اسم، فعل اور حرف کی تمیز بتائی۔ پھر ان کے بتلائے ہوئے علم کو بغرض سہولت دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک کو ’’صَرف‘‘ کا نام دیا گیا اور دوسرے کو ’’نحو‘‘ کا۔ حقیقت میں ’’صرف‘‘، نحو ہی کا ایک حصہ ہے اور اس کے موجد سیدنا علی رضہ ہیں۔

’’امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب رضہ سے متعدد ایسے کاموں کی ابتدا ہوئی جس کے آثار نہ صرف یہ کہ باقی و پائندہ ہیں بلکہ جب تک عربی زبان اور اس کے قواعدِ نحو و صرف باقی ہیں، وہ کارنامہ زندۂ و جاوید رہے گا۔ ابوالقاسم الزجاجی کی کتاب ’’امالی‘‘ میں مذکور ہے کہ (ابوالاسود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ) میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضہ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کو دیکھا کہ سر جھکائے متفکر بیٹھے ہیں، میں نے عرض کیا: امیرالمومنین! کس معاملہ میں متفکر ہیں؟ فرمایا: میں تمہارے شہر میں عربی غلط طریقہ پر بولتے ہوئے سنتا ہوں، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ زبان کے اصول و قواعد میں ایک یاد داشت تیار کردوں۔ میں نے عرض کیا:

اگر آپ ایسا کردیں تو ہمیں آپ کے ذریعہ زندگی مل جائے گی اور ہمارے یہاں عربی زبان باقی رہ جائے گی۔اس گفتگو کے تین روز کے بعد میں پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ایک کاغذ مرحمت فرمایا جس میں علم نحو کے ابتدائی مسائل درج تھے‘‘۔خود سوچئے کہ جس علم کو حاصل کئے بغیر کوئی انسان (خواہ وہ عربی ہو یا عجمی) عالم نہیں بن سکتا تو پھر جو شخص اس علم کا موجد اور موسس ہو وہ باب العلم نہیں ہوگا تو کیا ہوگا؟ افسوس کا مقام ہے کہ لوگ علمِ صَرف اور نحو کو تو تمام علوم کا ماں باپ تسلیم کرتے ہیں لیکن جو ہستی ان علوم کی واضع اور صانع ہے، اسے تمام علوم کا دروازہ تسلیم نہیں کرتے۔عامۃ الناس کو جانے دیجئے! کم از کم جو شخص عربی پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور خود کو عالم کہلاتا ہے اسے تو حدیث انا مدینۃ العلم وعلی بابھا کا انکار نہیں کرنا چاہئے! کیونکہ اس کے اندر عربی جاننے کی اہلیت صرف اور صرف اسی عربی گرائمر کی بدولت پیدا ہوئی جس کے موجد سیدنا علی رضہ ہیں۔

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضہ کی اِس شانِ علم کو جاننے کے باوجود نہ جانے کیوں بدنصیب لوگ شانِ مرتضوی کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ نو افراد پر مشتمل ایک وفد آیا تو انہوں نے کہا: اے ابن عباس! یا تو آپ الگ ہوکر ہماری بات سنیں یا ان لوگوں کو باہر بھیج دیں۔ اس وقت تک وہ صحیح تھے، نابینا نہیں ہوئے تھے۔ فرمایا: میں اٹھ کر تمہارے ساتھ باہر جاتا ہوں۔ انہوں نے گفتگو کی لیکن ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے کیا کہا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فارغ ہوکر آئے تو وہ اپنا دامن جھاڑتے ہوئے فرمارہے تھے:

اگر کبھی آپ غور فرمائیں کہ سورۃ الضحیٰ، سورۃ الکوثر اور سورۃ القلم، وغیرھا سورتیں اور آیات کیوں اور کس وقت نازل ہوئیں تو آپ پر یہ حقیقت واضح ہوجائے گی۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس علیہ السلام کی زبان مبارک ایسے ہی موقعہ پر گوہر افشاں ہوئی اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس بھی اکثر ایسے ہی مواقع پر جنبش میں آئی۔’’علی رضہ اور قرآن دونوں جدا نہ ہوں گے‘‘حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت ابو ثابت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:’’علی ( رضہ) قرآن کے ساتھ اور قرآن علی (رضی اللّٰہ عنہ) کے ساتھ ہے، دونوں جدا نہ ہوں گے حتی کہ اکٹھے حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے۔‘‘

معلوم ہوا کہ حضرت علی رضہ خصوصاً اس علم کا دروازہ ہیں جو ہدایت پر مبنی ہے، لہذا جس شخص کا قلب محبت علی رضہ سے خالی ہو اس کا علم ہدایت سے محروم رہنا یقینی ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *