[]
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
ہندوستانی قوم آج اپنے ملک کی 77ویں یوم آزادی کی تقاریب بڑی تزک و احتشام سے منارہی ہے۔ ہندوستان کی آزادی کا یہ یادگارد دن ان شہیدانِ وطن کی یاد دلاتا ہے جن کی بے مثال قربانیوں کے نتیجہ میں یہ ملک آزاد ہوا تھا۔ ہندوستان کو غلامی کے طوق سے نکالنے اور یہاں سے سامراجی اقتدار کو ختم کرنے کے لئے جو تحریک چلی تھی اس میں سب سے اہم کردار مسلمانوں نے ادا کیا تھا۔ مسلمانوں کے نزدیک ہندوستان کی آزادی محض ایک سیاسی مسئلہ نہیں تھی بلکہ مسلمانوں نے اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے تحریک آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ مسلمان اور غلامی یکجا نہیں ہو سکتے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو یہ درس دیا کہ آزادی اور حریت انسانوں کا فطری حق ہے ۔ اسے کوئی طاقت چھین نہیں سکتی۔ یہی وہ اسلامی تعلیمات کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کے مذہبی رہنماو¿ں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کرنے کافتوی دیا۔ جدو جہد آزادی کی دو سو سالہ تاریخ میں مسلمانوں نے مختلف ادوار میں انگریزوں کے خلاف محاذ آرائی کر تے ہوئے انہیں اس ملک کو چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ہندوستان کی آزادی کے لئے مسلمانوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور دار و رسن کی منزلوں کو طے کیا۔ انڈمان اور نکو بار کے قید خانے مسلمان اسیروں سے آباد رہے۔ جبر و استبداد کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے مسلم مجاہدین آزادی نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن سامراجی طاقت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ جدوجہد آزادی کی پوری تاریخ مسلمانوں کی ناقابل فراموش قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ بنگال میں سراج الدولہ نے اور میسور میں ٹیپو سلطان نے جس بے جگری کے ساتھ انگریزوں سے مقابلہ کیا تھا، اس کی ساری تفصیل تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھی گئی۔ 1857 کی پہلی جنگ آزادی میں مسلمان ہی سب سے آگے تھے۔ انہوں نے سر دھڑ کی بازی لگا کر انگریزی اقتدار کو چیلنج کیا تھا۔ مغلیہ سلطنت کے آخری چشم و چراخ بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں یہ عظیم بغاوت ہوئی تھی۔ ایک ایسے وقت جب کہ مادرِ ہند کے دوسرے طبقے انگریزوں سے راہ و رسم بڑھا کر ان سے وفاداری کی قسمیں کھا رہے تھے، یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے عہدہ اور منصب کو ٹھکرا کر ملک کی آزادی کے لئے اپنا سب کچھ کچھ لُٹا دیا۔ انگریز یہ سمجھتے تھے کہ مسلمان ہی ان کے اصل دشمن ہیں۔ ایک مورخ نے لکھا کہ ”ایک انگریز کا یہ شیوہ ہو گیا تھا کہ وہ ہر مسلمان کو غدار اور باغی سمجھتا تھا۔ ہر ایک سے پوچھتا تھا کہ تم ہندو ہو یا مسلمان؟ جواب میں مسلمان سنتے ہی گولی ماردیتا تھا “ ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں نے میر کارواں کا رول ادا کیا۔ ان کی سرکردگی میں آزادی کی تحریک کامیابی کے ساتھ چلتے ہوئے اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ سکی اور یہ ملک دو سو سال کی جاں گسل جدوجہد کے بعد 15 ا گست 1947کو آزاد ہوا۔ اس ملک کی آزادی کے لئے مسلمانوں نے ہی صور پھونکا تھا۔ بعد میں دیگر طبقے بھی تحریک آزادی کے قافلے میں شامل ہوئے۔ مسلمانوں کا آزادی وطن کے لئے جو نمایاں رول رہا اس کا مقابلہ ملک کا کوئی دوسرا طبقہ نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیپو سلطان کی میدان جنگ میں شہادت کے بعد انگریز جنرل نے کہا تھا کہ ”اب ہندوستان ہمارا ہے “ ٹیپو سلطان شہید کا یہ جملہ ضرب المثل بن چکا ہے ” شیر کی ایک دن کی زند گی گیدڑ کی سوسال کی زندگی سے بہتر ہے“ یہی وہ آزادی کا جذبہ تھا کہ مسلمان انگریزوں کے خلاف ڈٹے رہے اور ان کی جانفشانیوں نے رنگ لایا اور ہندوستان میں آزادی کا سورج پوری آب و تاب سے طلوع ہوا۔
ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد یہ ملک آزاد ہوا۔ آزادی کے بعد ہندوستان کی تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ مسلمانوں نے جن امیدوں اور آرزو¿ں کے ساتھ اس ملک کو اپنا خون ِ جگر دے کر آزاد کر ایا تھا۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے آزادی کے بعد مسلمانوں کو اس آزاد ملک میں ایک باو قار مقام و مر تبہ ملے گا۔ لیکن آزادی کے ساتھ ہی مسلمانوں کو احساس کم تری میں مبتلا کرنے کی منظم کوششیں اس ملک میں ہونے لگی۔ ہندوستان کی آزادی سے پہلے اس کے بٹوارہ کا ذ مہ دار مسلمانوں کو بتا کر یہ کہا جانے لگا کہ تم نے تو ملک کو تقسیم کرکے اپنا حصہ لے لیا ۔ اب ا گر تم یہاں رہنا چاہتے ہیں تو ہمارے رحم وکرم پر تم کو رہنا ہوگا۔ تقسیمِ ملک کی ذ مہ داری مسلمانوں کے کندھوں پر ڈال کر ان کو ملک کے قومی ثمرات سے مستفید ہونے کا موقع نہیں دیا گیا۔ آزادی کے 76سال گزر جانے کے بعد بھی اس ملک میں فرقہ پر ست یہ نعرے لگاتے ہیں کہ ”مسلمانوں کے دو ہی استھان۔ ایک پاکستان دوسرا قبرستان“ مسلمانوں کے خلاف اس جارحانہ رویہ کے نتیجہ میں مسلمان حاشیہ پر لا دیے گئے۔ ملک کے تمام طبقے آج ہرقسم کے فائدے اٹھارہے ہیں لیکن مسلمانوں کو ایک دائمی اور مستقل اقلیت کا احساس دلا کر ان کے جائز حقوق بھی انہیں نہیں دیے جا رہے ہیں۔ ملک کی آبادی کا چودہ فیصد حصہ ہونے کے باوجود زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں ان کے ساتھ انصاف کیا جا رہا ہو۔ اب تو صورت حال اتنی بھیانک ہو چکی ہے کہ سفاکی اور بربریت کا ننگا رقص مسلمانوں کے خلاف رچایا جا رہا ہے۔ میوات کے ضلع نوح میں حالیہ فساد کے بعد مظلوم مسلمانوں کے گھروں پر بلڈورز چلا دیا گیا۔ آئین اور قانون کے ہو تے ہوئے اس کا کوئی پاس و لحاظ بھی نہیں رکھا گیا۔ جو شرپسند عناصر مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کی املاک کو تباہ برباد کرتے ہیں انہیں حکومتوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ آج مسلمانوں کے کتنے ہی قاتل نہ صرف آزاد گھوم رہے ہیں بلکہ انہیں اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کی رکنیت اور وزارتیں دی جارہی ہیں۔ عدالتوں کی جانب سے ان پر فردِ جرم عائد ہونے کے باوجود ایسے قاتلوں اور زانیوں کو بی جے پی حکومت جیل سے رہا کر دیتی ہے۔ گز شتہ سال عین یوم آزادی کے دن گجرات کی حکومت نے 2002کے گجرات فسادات کے ملزمین کو جنہیں عدالت نے عمر قید کی سزا دی تھی ،، انہیں عام معافی دیتے ہوئے رہا کر دیا۔ انسانیت کو شرمسار کردینے والے جرائم میں ملوث مجرمین کو عام معافی دے دینا انصاف کے تقاضوں کی دھجیاں اڑادینے کے مترادف ہے۔ لیکن مسلمانوں کے ساتھ اس ملک میں ناانصافی کا یہ سلسلہ جا ری ہے ۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ گجرات فسادات کے دوران ایک بے گناہ خاتون بلقیس بانو کی 11درندہ صفت عناصر نے اجتماعی عصمت ریزی کی تھی۔ اس خاتون کی چار سالہ لڑکی کوبیدردی کے ساتھ قتل کرنے کے علاوہ اس خاندان کی مزید چار خواتین کی بھی اجتماعی عصمت ریزی کرتے ہوئے انہیں قتل کر دیا گیا تھا۔ جب یہ معاملہ منظر عام پر آیا تو تحقیقات ہوئیں ۔2008 میں عدالت کی جانب سے ان ملزمین کو عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔لیکن افسوس کہ انہیں عام معافی دے کر مظلوموں کے زخموں کو پھر سے ہَرا کر دیا گیا۔ گجرات کی حکومت نے یہ کام ایسے وقت انجام دیا جب کہ ملک کے وزیراعظم دہلی کے لال قلعہ سے یوم آزادی کے موقع پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں خواتین کی عزت و عفت کے تحفظ کے بڑے دعوے کر رہے تھے۔ یہ ایک مثال ہے ورنہ آزادی کے بعد سے مسلمانوں کے لئے عرصہ ِ حیات تنگ کر کے رکھ دیا گیا۔ حالیہ دنوں میں میوات میں شوبھا یاترا کے نام پرنکالے گئے جلوس میں فرقہ پر ست طاقتوں نے مسلمانوں کے خلاف جو زہر اُ گلا اس پر تو کوئی کاروائی نہیں ہوئی اس کے برخلاف مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلا دیا گیا۔
ہندوستان کی آزادی کے اس 76 سالہ سفر کے دوران مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس اتنا گہرا کر دیا گیا کہ وہ اپنی معاشی، تعلیمی ، سماجی اور سیاسی ترقی کے بارے میں کوئی ٹھوس لائحہ عمل بھی نہ بنا سکے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت مسلمانوں کو ہنگامی اور وقتی مسائل میں الجھا کر اس طرح رکھ دیا گیا کہ اس کو حل کرنے میں ہی آزادی کے سات دہے نکل گئے۔ فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعہ جہاں مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو سے کھیلا گیا وہیں انہیں معاشی حیثیت سے کمزور کر دیا گیا۔ جہاں جہاں مسلمان معاشی طور پر مضبوط تھے وہاں فسادات کے ذریعہ ان کی معیشت کو تباہ وبرباد کر دیا گیا۔ تعلیم کے شعبہ میں انہیں پسماندہ کر کے رکھ دیا گیا۔ بیشتر مسلم بستیوں میں پولیس اسٹیشن تو قائم کئے گئے تا کہ مسلمانوں پر کڑی نظر رکھی جا سکے لیکن مسلم آبادیوں میں اسکول اور کالج قائم نہیں کئے گئے۔ آزادی کے بعد مسلمان تعلیم میں ملک کے دیگر طبقوں سے کتنے پیچھے ہوگئے اس کا پتہ سچر کمیٹی کی رپورٹ سے ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی تعلیمی پستی کا اثر زندگی کے دیگر شعبوں پر بھی پڑا۔ موجودہ حکومت اپنی نئی تعلیمی پالیسی کے ذریعہ مسلمانوں کے لیے عصری تعلیم کے دروازے مزید تنگ کر دینا چاہتی ہے۔ تعلیمی نصاب میں ایسی چیزوں کو شامل کر دیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے عقیدہ سے ٹکراتی ہیں۔ تعلیم کو زعفرانی رنگ دے کر ہندوتوا کے علم بردار اپنے ایجنڈے کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ ہندو کلچر اور دیو مالائی قصوں کو نصاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ آزادی کے بعد مسلمانوں سے ان کی عبادت گاہوں کو چھیننے کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی نے آزادی کے بعد مسلمانوں کو اقتدار کے سرچشموں سے دور کر دیا۔ملک کی 20 کروڑآبادی کی کوئی موثر سیاسی نمائندگی نہیں ہے۔ سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کو محض ایک ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتی رہیں۔ مسلمان ان پارٹیوں کے پرچم ڈھو کر خوش ہو تے رہے۔ اسمبلی اور پارلیمنٹ میں ان کی آواز صدا بہ صحرا ہو تی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کو ان کے دین اور شریعت سے بھی دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ آزادی کے بعد سے ملک میں ہر تھوڑے دن کے بعد یکساں سول کوڈ کا مطالبہ مختلف گوشوں سے ہوتا رہا۔ دستور میں دی گئی مذہبی آزادی کو بالائے طاق رکھ کر پورے ملک کی عوام پر یکساں سول کوڈ مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں مرکز کی بی جے پی حکومت نے لا کمیشن کو استعمال کرتے ہوئے یہ بحث پھر سے چھیڑ دی۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ یکساں سول کوڈ کے مطالبے کے پس پردہ یہی کوشش ہے کہ مسلمانوں کی شریعت کو ختم کر دیا جائے اور انہیں ہندو تہذیب میں ضم کرلیا جائے۔ ہندوتوا کے ماننے والوں کے نزدیک ہندومت کے علاوہ سارے مذاہب غیر ملکی ہیں ۔ اس لئے ان کا وجود ان کے لئے نا قابل برداشت ہے ۔ آزادی کے 76سال کے دوران ہندوستان کے مسلمانوں پر چہار طرفہ یورش ہو تی رہی۔ اس کا ایک سرسری جائزہ لیا گیا۔ ملک کے کسی دوسرے گروہ پر اتنی مصیبتیں آتیں تو وہ اپنا وجود کھو دیتے۔ لیکن لاکھ آزمائشوں کے باوجود اس ملک میں مسلمان دین و شریعت کے ساتھ زندہ ہیں اور وہ ہر طوفانِ بلا خیز کا مقابلہ بھی کر رہے ہیں۔ آزادی کی اس 76ویں سالگرہ کے موقع پر مسلمانوں کو بھی اپنا جائزہ لیتے ہوئے یہ غور کرنا چاہئے کہ اس میں ان کی بے حسی یا بے شعوری کا کتنا دخل ہے۔ مسلمانوں نے بھی آزادی کے بعد اپنی منزل کا تعین نہیں کیا اور وہ دوسروں پر انحصار کر تے رہے۔ ایک دوراندیش، مخلص ا ور بیباک مذہبی اور سیاسی قیادت کے بغیر مسلمان اس ملک میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل نہیں کرسکتے۔ اس کے لئے ہر سطح پرذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر منصوبہ بند انداز میں ٹھوس اقدامات کرنا وقت کا ایک اہم تقاضا ہے۔