ظلم‘ جبر ‘آمریت اور داخلی جھگڑے بی جے پی کے تابوت میں آخری کیل

[]

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی پی ایچ ڈی

کہتے ہیں کہ آغاز اچھا ہو تو انجام بھی شاندار ہوتا ہے۔ لوک سبھا چناؤ 2024 کا پہلا مرحلہ 19؍اپریل کو مکمل ہوا۔ کہا جارہا ہے کہ اس مرحلے میں انڈیا بلاک نے عظیم الشان مظاہرہ کیا ہے۔ سیاسی ماہرین بڑے اعتماد کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ اترپردیش میں انڈیا بلاک کے دو امیدوار یعنی کانگریس کے عمران مسعود اور سماج وادی پارٹی کی نوجوان امیدوارہ اقرا حسن بھاری ووٹوں سے کامیاب ہورہے ہیں۔ مہاراشٹرا میں بھی پانچ جگہوں پر انڈیا بلاک کے امیدوار بہت مضبوط ہیں۔ اس ریاست میں بی جے پی کی کمزوری کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نتن گڈکری ووٹوں کی خاطر گلی گلی میں گھومتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ ماضی میں انہوں نے گھر بیٹھے جیت حاصل کی تھی۔ بہرحال پہلے مرحلے میں جہاں جہاں پولنگ ہوئی ہے وہاں پر انڈیا بلاک بے انتہا مضبوط دکھائی دے رہا ہے۔ بی جے پی کی ہار کے کئی وجوہات دکھائی دے رہے ہیں۔ جس میں Anti Incumbency ‘ داخلی جھگڑے اور مودی کا آمرانہ انداز شامل ہیں۔ مودی نے ایسے سینکڑوں وعدے کئے لیکن پچھلے دس سالوں میں انہیں چھوا تک نہیں۔ مختصر یہ کہ بی جے پی ہر محاذ میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ بی جے پی کی سب سے شرمناک بات یہ رہی کہ اس نے رکیک کمیونل ایجنڈے کو چھوڑا نہیں جس کی وجہ سے ہندو بھائیوں کی اکثریت بھی ان کے خلاف ہوگئی ہے۔ راجپت اور جاٹ طبقوں کے خلاف بی جے پی قائدین کے گندے تبصروں کی وجہ سے بھی ووٹروں کی ایک بڑی تعداد بی جے پی کے خلاف ہوگئی ہے۔ کئی جگہوں پر راجپتوں نے قسم کھائی کہ وہ بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ بی جے پی کا فرقہ پرستانہ ایجنڈہ پورے ملک میں ناکام ہوچکا ہے۔ رمضان مقدس کا پُرامن گزر جانا اور عید کی نماز کا پُر سکون انداز میں ادا ہوجانا اور پھر رام نومی کا کسی گڑ بڑ کے بغیر اختتام کو پہنچنا اس بات کا ثبوت ہے کہ بی جے پی کا منفی عمل مثبت اتحاد میں بدل گیا ہے۔ چناؤ کے سارے مرحلے اگر پُرامن انداز میں گزر جاتے ہیں تو یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز میں فرقہ پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حالیہ عرصہ میں یہ رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ ووٹ دینے کے لئے بھاری اکثریت میں گھروں سے نہیں نکل رہے ہیں۔ کچھ لوگ الیکشن کے دن کو ملنے والی چھٹی سے فائدہ اٹھا کر تفریحوں میں مشغول ہوجاتے ہیں جو انتہائی معیوب بات ہے۔ لوگوں کو چاہئے کہ نہ صرف وہ خود اپنا ووٹ ڈالیں بلکہ اپنے دوست احباب کو بھی مجبور کردیں کہ وہ بھی اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ اس عمل سے جمہوریت مضبوط ہوگی اور آپ کی اپنی پسند کا امیدوار جیتانے میں مدد ملے گی۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ خیال ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جنوب میں صاف ہوجائے گی جبکہ نارتھ میں ہاف پر رہے گی یعنی جنوب میں صاف ، شمال میں ہاف ۔ مختلف غیر جانبدار صحافتی گھرانوں کے سرویز کے مطابق اس بار بی جے پی کی دال نہیں گلے گی۔ کسی نے از راہ طنز بی جے پی کے بارے میں یہ کہا ہے کہ اب کی بار 400 پار نہیں بلکہ صرف چاکوبار۔ الیکشن کمیشن کی زبردست وارننگ کے باوجود نریندر مودی اپنی فرقہ دشمنی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کانگریس کے مینوفیسٹو کو مسلم لیگ کا مینوفیسٹو قرار دیا ہے۔ غربت کو دور کرنا ، عورتوں کو ان کا حق دینا، بیروزگاروں کو نوکری دینا ، کسانوں کو ان کی پیداوار کی دگنی آمدنی فراہم کرنا اور اسی طرح کے بے شمار فلاحی کاموں کو انجام دینا کیا مسلم لیگ ہوتا ہے۔ ان کے اس comment پر الیکشن کمیشن نے کوئی کاروائی نہیں کی کیا اس کو میچ فکسنگ کہہ سکتے ہیں؟ الیکشن کمیشن نے راہول گاندھی کے ہیلی کاپٹر کا معائنہ کیا ہے لیکن وہیں پر نریندر مودی اور مرکزی وزرا کے ہیلی کاپٹر کی جانچ نہیں کی گئی۔ اس دو نظری کا کیا معمہ ہے سمجھ میں نہیں آتا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی چناوی مہم پھیکی پھیکی دکھائی دے رہی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جلسوں میں بھیڑ نہیں ہے اور اگر لوگ آ بھی گئے ہیں تو چناوی تقریروں سے ان کی بیزارگی صاف نظر آرہی ہے۔ راجستھان میں ایک منسٹر کے جلسہ میں کوئی نہیں آیا تو وہ وہاں سے بے انتہا مایوس ہوکر واپس چلے گئے۔ وہیں انڈیا بلاک کے جلسے بڑے ہی شاندار ڈھنگ سے منعقد ہورہے ہیں اور لوگوں کا جوش دیکھنے کے لائق ہے۔ راہول گاندھی ، پرینکا گاندھی ، اکھلیش یادو، اودھے ٹھاکرے ، شرد پوار اور تیجسوی یادو کے جلسے دیکھنے کے لائق ہیں۔ ان کے جلسوں میں لوگوں کا جوش و خروش یہ ثابت کررہا ہے کہ انڈیا بلاک کی سرکار بننے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ کانگریس کا مینو فیسٹو عوام کی ترقی اور بہبودی سے متعلق ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے۔ سیاسی ماہرین کا یہ احساس ہے کہ 70 سال کی تاریخ میں یہ پہلا انتخابی منشور ہے جس میں عوام کی امنگوں کو مکمل کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ بیروزگاری کو دور کرنے کے لئے Apperenticeship اسکیم کو متعارف کروانا اور تربیت پانے والے ہر بیروزگار نوجوان کو ایک لاکھ روپئے کا Apperenticeship الاؤنس دینا مرکزی حکومت میں مخلوعہ 30 لاکھ ملازمتوں پر تقرر کرنا ہر غریب گھر سے ایک خاتون کو ایک لاکھ روپئے سالانہ کی مدد دینا ان ہی طبقات کے لوگوں کو 25لاکھ روپئے کا ہیلت انشورنس دینا اورWeakers Section کے لوگوں کی مردم شماری کروانا ایسے امور ہیں جس سے ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مینوفیسٹو میں متاثر کرنے والی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس وقت ملک میں بیروزگاری سب سے بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ India Employment Report 2024 کے مطابق ہر تین نوجوانوں میں سے ایک نوجوان بیروزگار ہے۔ چھوٹی چھوٹی صنعتوں کا جال پھیلانے سے ملازمتوں کے بڑے بڑے مواقعے دستیاب ہوسکتے ہیں۔ راہول گاندھی کی سوچ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے۔ وہ ہر معاملے میں اپنا ایک خاص نظریہ رکھتے ہیں۔ مختلف مسائل پر ان کی خاص نظر ہے ۔ ترقی کے معاملے میں وہ دوسروں کے نکتہ نظر کو ایک الگ ڈھنگ سے دیکھتے ہیں۔ اسی لئے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ
لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھے زندگی کو کسی کی نظر سے ہم



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *