[]
ابو سلمان
اللہ رب العزت نے جناب خان لطیف محمدخان کے نام اور شخصیت میں کچھ ایسی تاثیر ودیعت کردی تھی کہ پہلی ملاقات میں ہی اکثر لوگ ان سے مرعوب ہوجاتے تھے اور نشست کے برخاست ہونے سے قبل ان کے گرویدہ۔ ان کے بچپن کے دوستوں کے مطابق ان کی سوچ و فکر سب سے جداگانہ ہوتی تھی۔ وہ کچھ ایسا کرنے کی ٹھان لیتے تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جب وہ کچھ کرنے کا ارادہ کرتے تو سب کو لگتا تھا کہ انجام کو نہ پہنچنے والے کام کا وہ بیڑہ اٹھانے کی ٹھان رہے ہیں مگر جو کام کرنے کا وہ ارادہ کرتے نہ صرف اس کو مکمل کرکے ہی چین لیتے بلکہ فوری بعد ایک نیا مشن شروع کردیتے۔ ہر کوئی ان کا قائل ہوجاتا تھاکہ انہوں نے جن مقاصد کے تحت مشن آغاز کیا تھا ان سے کہیں بہتر مقاصد حاصل ہونے لگے ہیں۔ ان کے تمام کام صرف ان کی اپنی ذاتی ترقی یا شہرت کے لئے نہیں ہوتے تھے بلکہ ان میں کہیں نہ کہیں ملی مفاد پنہاں ہوتا تھا۔ وہ شروع سے ہی دوسروں کو بھی اپنے پراجکٹس کے شراکت دار بنانے کے قائل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے جڑے بہت سے لوگوں نے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں اوراپنی علیحدہ شناخت بنانے میں کامیاب رہے۔
جناب خان لطیف محمد خان کی ساری زندگی جستجو اور لگن سے عبارت رہی ہے۔ پولیس ایکشن کے وقت جب ان کا خاندان سوریہ پیٹ سے نقل مکانی کرتے ہوئے حیدرآباد پہنچا تھا، ان کے پاس کوئی وسائل نہیں تھے مگر انہوں نے کبھی حوصلہ نہیں ہارا۔ ایک ایسے وقت میں جب مسلمان، حاکم قوم سے محکوم قوم بن گئی تھی اور مجموعی طور پر قوم میں ایک انجان سا خوف طاری تھا، سرکاری سطح پر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جانے لگا تھا اور ان میں ایک احساس محرومی پیدا ہوگیا تھا، جناب خان لطیف محمد خان نے تن تنہا مسلمانوں کے دلوں سے یہ خوف دور کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ زمانہ طالب علمی سے ہی انہوں نے کچھ ایسے کارنامے انجام دئیے کہ اس وقت کے نوجوانوں کے دلوں سے یہ خوف جاتا رہا کہ وہ اب حاکم قوم نہیں رہے تو کیا ہوا، آئین ہند نے انہیں اپنے ابنائے وطن سے کمتر کا درجہ تو نہیں دیا ہے اور قانون، سب کے لئے مساوی سلوک کرتا ہے، جس سے نوجوانوں کو بڑا حوصلہ ملا اور ان میں پھر سے جرأت پیدا ہوئی اور وہ ہر میدان میں اپنی صلاحیتیں منواتے ہوئے ایک بہتر شروعات کرنے کاعزم کرنے لگے۔ کالج کے ماحول میں جہاں اکثریتی طبقہ، مسلمانوں پرغلبہ پانے کے لئے کچھ زیادتیاں کرتا تھا تو اس کا آپ نے دندان شکن جواب دیا اور اپنے مخالفین کو ناکوں چنے چبوائے۔ قلیل عرصہ میں ہی انہوں نے ماحول کو ایسے تبدیل کردیا کہ مسلم نوجوانوں میں پایا جانے والا احساس کمتری جاتا رہا۔
جب تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ امریکہ منتقل ہوئے تھے تووہاں بھی مختصر عرصہ میں اپنا امپائر کھڑا کردیا۔ اس کے باوجود اپنے وطن کومکمل خیر باد نہیں کہہ دیا بلکہ وہ اپنی مٹی سے ہمیشہ جڑے رہے۔اپنے وطن کی یاد انہیں یہاں کھینچ لاتی۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ امریکہ جانے کے بعد انہوں نے بہت سے مسلمانوں کے لئے امریکہ کے دروازے وا کردئیے۔ امریکہ میں بھی انہوں نے ہمیشہ عمومی طور پر ملت کے نوجوانوں اورخصوصی طور پر اپنے وطن سے آنے والے مسلمانوں میں غریب الوطنی کے احساس کو پیدا ہونے نہیں دیا اور ان کے لئے روزگار کے نت نئے مواقع فراہم کرتے رہے۔
جب وہ حیدرآباد آتے تو اپنے دوستوں کے ساتھ ملک و قوم کے مسائل پر تبادلہ ئ خیال کرتے اور بھارتی مسلمانوں کے لئے ایک لائحہ عمل دیتے۔ جب انہوں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے صحافت ایک بہترین وسیلہ ثابت ہوسکتی ہے تو انہوں نے صحافت میں قدم رکھنے کا فیصلہ کرلیا اور اپنی ادارت میں ایک معیاری اردو اخبار کو منظر عام پر لانے کے لئے روزنامہ منصف کو ایک دلکش انداز میں پیش کرنے کی ٹھان لی۔ آناً فاناًشہر بھر سے جید صحافیوں کو جوڑنا شروع کردیا اور ساتھ ہی نوجوانوں کی ایک ٹیم کا انتخاب کیا تاکہ انہیں میدان صحافت میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع حاصل ہوجائے۔ انہوں نے صحافت کو قوم کی خاموش خدمت کا ایک ذریعہ بنا دیا تھا۔ جب انہوں نے روزنامہ منصف کے نظم و انصرام کو اپنے ہاتھوں میں لیا تھا تو نہ صرف اردو صحافت کی نشأت الثانیہ کی داغ بیل ڈال دی تھی بلکہ اردو صحافت کی عظمت رفتہ بحال کردی۔ انہوں نے نہ صرف ایک اچھے اخبار کی شروعات کی جو اس وقت کسی بھی زبان میں شائع ہونے والے اخبار سے کم نہ تھا۔ یہی نہیں بلکہ اردو صحافی جو احساس کمتری میں مبتلا تھے ان کی بھی توقیر و عزت بڑھا دی۔
روزنامہ منصف کی اشاعت نے اردو صحافت میں ایک عظیم انقلاب برپا کردیا چونکہ انہوں نے اردو اخبار کے معیار کو اس قدر بڑھا دیا تھا کہ ہمعصر دیگر صحافتی اداروں کو بھی جو برسوں سے اذکار رفتہ ٹیکنالوجی اور اسلوب کے اسیر بن بیٹھے تھے، ان کو اپنے خول سے باہر نکل آنے اور مسابقت کرنے پر اکسایا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ نہ صرف حیدرآباد بلکہ برصغیر ہند کے اردو اخبارات نے اپنے میں بہت سی تبدیلیاں لے آئیں اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ وہ ایسا نہ کرتے تو شائد بہت سے صحافتی ادارے بند ہوجاتے اور سینکڑوں اردو صحافی بے روزگار ہوجاتے۔ اگرچہ جناب خان لطیف محمد خان نے روزنامہ منصف کی نئے اسلوب میں پیشکش کے ذریعہ تقریباً ہر اردو اخبار کے لئے ایک بڑا چیالنج کھڑا کردیا تھا مگر انہوں نے کبھی بھی رقابت کو پنپنے نہیں دیا اور اپنے ہمعصر مدیران اخبارات کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو برقرار رکھا، جس کے بہت ہی مثبت نتائج برآمد ہوئے اور اس کے ثمرات قوم و ملت کو پہنچنے لگے۔
نوے کی دہائی کے اختتام تک بھارتی مسلمانوں پر عتاب صرف فرقہ وارانہ فسادات کی صورت میں ہی نازل ہوتے تھے مگر نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی حکومت وقت نے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے ایک نیا حربہ اختیار کیا تھا اور انکاؤنٹر س میں انہیں ہلاک کرتے ہوئے ان پر دہشت گرد ہونے کا الزام عائد کردیا جاتا تھا۔ اس نئی صورت حال سے وہ بے چین ہو اٹھے۔ وہ یہ ماننے کے لئے ہرگز آمادہ نہیں تھے کہ کم عمر مسلم نوجوان، ملک کے خلاف غداری جیسے سنگین جرم کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔انہوں نے اپنے رپورٹرس کی ٹیم کو حقائق کو بے نقاب کرنے کی ترغیب دی۔ منصف کے ہی رپورٹرس نے انکاؤنٹر ہلاکتوں کی تحقیقات کا بیڑہ اٹھایا اور دہشت گردی کے الزامات میں ماخوذ کئے جانے والے نوجوانوں کی بے گناہی کو دنیا کے سامنے لے آنے کی انتھک کوشش کی اور اپنی تحقیقات کے ذریعہ یہ ثابت کردیا کہ انکاؤنٹرس کے نام پر شہید کردئیے گئے نوجوان بے قصور تھے۔ روزنامہ منصف میں شائع ہونے والی خبروں کا ہی اثر تھا کہ دو درجن سے زائد جن مسلم نوجوانوں کو حل نہ ہونے والے قتل کے الزامات میں زنداں میں ڈال دیا گیا تھا،ان کے الزامات منسوبہ میں ملوث پائے جانے کی سی بی سی آئی ڈی کے ذریعہ ازسرنو تحقیقات کروانے پر حکومت مجبور ہوئی اور ان تحقیقات میں یہ بات آشکار ہوگئی کہ پولیس قتل کے جن مقدمات کو حل کرنے میں ناکام ہوگئی تھی، ان کے خون کا الزام ان مسلم نوجوانوں کے سر پر ڈال دیا تھا اور نتیجہ میں یہ تمام نوجوان باعزت بری کردئیے گئے۔
دہشت گردی کے الزامات کی آڑ میں جب ملک بھر میں مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنایا جانے لگا اور ساری قوم کو بدنام کیا جانے لگا تو جناب خان لطیف محمد خان نے روزنامہ سیاست کے مدیر جناب زاہد علی خان اور رہنمائے دکن کے مدیر جناب سید وقارالدین قادری کے ساتھ مل کر نہ صرف دہشت گردی کے نام پر رچی جانے والی سازش کو بے اثر کرنے کے لئے ایک مہم شروع کی بلکہ ان تینوں مدیران اردو اخبارات نے حکومت کے امکانی قہر کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک ایسی مہم شروع کردی کہ بالآخر دہشت گردی کے نام پر گرفتاریوں اور ہلاکتوں کا سلسلہ روکنے پر حکومت وقت مجبور ہوگئی۔
اسی دہے میں ان مدیروں نے صیانت اوقاف کی بھی مہم چھیڑ رکھی تھی اور قیمتی اوقافی جائیدادوں کی تباہی کو روکنے اپنے اخبارات کے کالم وقف کررکھے تھے۔ صیانت اوقاف کا اس مہم کے نتیجہ میں ملت میں اوقاف کے تئیں شعور جاگا اور آج یہ صورت حال ہے کہ شہر حیدرآباد میں کئی نوجوان اور تنظیمیں اوقاف اور منشائے وقف کے تحفظ کے لئے سرگرم ہوگئے ہیں۔کانگریس پارٹی نے یہ انتخابی وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ متحدہ آندھرا پردیش میں برسر اقتدار آتی ہے تو وہ مسلمانوں کو 5 فیصد تحفظات فراہم کرے گی اور اقتدار میں آنے کے بعد اس وقت کے چیف منسٹر ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے اپنے وعدہ کے مطابق مسلمانوں کو تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں تحفظات کی فراہمی کے لئے قانون سازی کردی مگر اغیار نے اس کو عدالت العالیہ میں چیالنج کردیا اور اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ اگر اس مقدمہ میں مؤثر پیروی نہ کی جائے تو ہمیشہ کے لئے مسلمانوں پر تحفظات کی مراعات کے دروازے بند ہوجائیں گے۔ جناب خان لطیف محمد خان اس نازک وقت میں بڑی دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اس مقدمہ کے فریق بن گئے اور ملک کے نامور ماہرین قانون کی خدمات حاصل کیں اور عدالت کے سامنے ٹھوس دلائل پیش کئے۔
مرحوم نے اپنی حیات تک جس شجر کی آبیاری کی تھی، ان کے انتقال کے بعد آپ کے خانوادہ نے جو امریکہ میں ہی رہائش پذیر ہے، منصف کو بند کردیتے ہوئے اس سے جڑے درجنوں پیشہ ور افراد کو روزگار سے محروم کردینے یا پھر کسی اور کے ہاتھوں ادارہ کو فروخت کردینے کی بجائے اپنے والد کے مشن کو جاری و ساری رکھنے، اخبار کا انتظامیہ، اخبار ہی سے جڑے جناب محمد عبدالجلیل صاحب کے ہاتھوں میں تھمادیا اور الحمدللہ موصوف بہت ہی خوش اسلوبی سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے اخبار میں نکھار پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔