ایران کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کا ممکنہ جواب کیا اور کیسا ہو گا؟

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: صیہونی حکومت کی جانب سے دمشق میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت پر حملے میں پاسداران انقلاب اسلامی کے متعدد کمانڈروں کی شہادت نے خطے اور دنیا میں منفی ردعمل اور تناو کی لہر دوڑا دی ہے۔

عالمی رائے عامہ نے صیہونی حکومت کے اس غیر معمولی اقدام کو قبول نہیں کیا ہے اور بعض حکومتوں نے اس جارحانہ حملے کی مذمت میں بیانات جاری کیے ہیں جو کہ سفارتی مراکز کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔

اس دوران سوشل میڈیا کے انگریزی اور عرب زبان صارفین نے ایرانی قونصل خانے پر حملے کے حوالے سے مغرب اور سلامتی کونسل کے غیر منصفانہ رویے، اس حملے کے پس پردہ محرکات اور ایران کے ممکنہ جواب کے حوالے سے مختلف آراء کا اظہار کیا۔ 

اسرائیل کی مذمت کے حوالے سے مغربی ممالک کا دوہرا معیار، غیر ملکی صارفین کی توجہ کا مرکز

صارفین کی ٹویٹس کو دیکھا جائے تو مغرب کس دوہرا معیار یا دوسرے لفظوں میں ایرانی قونصل خانے پر صیہونی حکومت کے حملے کے معاملے میں سلامتی کونسل کے ساتھ ساتھ یورپ اور امریکہ کی دوغلی پالیسی عیاں ہو جاتی ہے۔

ہندوستان کے دفاعی تجزیہ کار اور ریٹائرڈ فوجی افسر مہلینگم اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ یہ “جان بوجھ کر کیا گیا حملہ” تھا مغربی سفارت کاروں پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے اس حملے میں اپنی جانیں گنوانے والے لوگوں کے لیے تعزیت کا اظہار تک نہیں کیا۔

ایران کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کا ممکنہ جواب کیا اور کیسا ہو گا؟

اس ہندوستانی فوجی دفاعی تجزیہ کار کا اشارہ منگل کو سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کی طرف ہے جو صیہونی حکومت کے ایرانی قونصل خانے پر حملے کی تحقیقات کے لیے بلایا گیا تھا۔

اس اجلاس میں سلامتی کونسل کے 15 مستقل اور غیر مستقل رکن ممالک کی اکثریت نے صیہونی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی اور خطے میں کشیدگی بڑھانے کی کوششوں کی مذمت اور تنقید کی۔ تاہم امریکہ، برطانیہ، فرانس، جاپان اور جنوبی کوریا نے صیہونی حکومت کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا۔

ایک پوسٹ میں لبنانی نژاد امریکی مصنف اور تجزیہ کار نسیم نکولس طالب نے پولیٹیکل سائنس کے ایک ممتاز پروفیسر اور جارحانہ حقیقت پسندی کے نظریہ کے بانی جان میرشیمر کی ویڈیو کی تصدیق کی، جسے ایک صارف نے دوبارہ پوسٹ کیا تھا۔ 

ایران کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کا ممکنہ جواب کیا اور کیسا ہو گا؟

وہ لکھتے ہیں کہ Mearsheimer واضح طور پر بتاتا ہے کہ امریکہ اسرائیل کی حمایت اپنے مفادات یا کسی اور اخلاقی اصول کی وجہ سے نہیں بلکہ صیہونی لابی کے اثر و رسوخ کی وجہ سے کرتا ہے۔

ایک اور صارف نے یورپ پر تنقید کرتے ہوئے یورپی یونین پر حاوی”مافیا” کے اثر و رسوخ کی طرف اشارہ کیا جیسا کہ پچھلی پوسٹ میں امریکہ پر “لابی” کا حوالہ دیا گیا تھا۔ اس صارف کے نقطہ نظر سے یونین پر قابض مافیا کے باعث دوہرے معیار کا تاثر پیدا ہوا ہے۔

ایران کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کا ممکنہ جواب کیا اور کیسا ہو گا؟

ایک کاروباری شخص ارناؤڈ برٹرینڈ نے ناروے کی تعریف کی جو امریکہ، فرانس اور یورپی یونین کے نقطہ نظر کے برعکس ہے۔
“ناروے واحد مغربی ملک ہے جس نے اسرائیل کی طرف سے ایرانی قونصل خانے پر حملے کی مذمت کی ہے۔”

صیہونی حکومت کے ایرانی قونصل خانے پر حملے کے مقصد کے بارے میں صارفین کی رائے

ایران کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کا ممکنہ جواب کیا اور کیسا ہو گا؟

“مشال عبدالکریم الجربا” نامی عرب زبان صارف نے اس سلسلے میں لکھا: دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ تمام ریڈ لائنز کو عبور کرنے کے مترادف ہے جو صیہونیوں کی شکست پر بوکھلاہٹ کا واضح ثبوت ہے۔ اپنی نابودی کی طرف بڑھنے والی یہ حکومت عرب ممالک کے حالات کو بگاڑنے اور تنازعات کے دائرے کو پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اس کے اتحادی مزاحمتی محور کے ساتھ تصادم میں داخل ہوں۔

دوسری جانب جان ہاپکنز یونیورسٹی کے پروفیسر ولی نصر کا خیال ہے کہ صیہونی حکومت کا ہدف ایران کو اشتعال دلانا ہے اور اب گیند تہران کے کورٹ میں آ چکی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کا یہ ممتاز پروفیسر  اس بات پر زور دیتا ہے کہ ایران شاید اسرائیل کے بیانیے کو غزہ سے شام اور ایران تک تبدیل نہیں ہونے دے گا۔

ایران کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کا ممکنہ جواب کیا اور کیسا ہو گا؟

ایک اور صارف الیکس کینیڈی نے صیہونی حکومت کو جواب دینے میں ایرانی حکام کی احتیاط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے  لکھا: “یہ حملہ ایران کو براہ راست تنازعہ کی طرف کھینچنے کی چال ہو سکتا ہے۔”

ایران کا صیہونی رجیم کو ممکنہ جواب کیا ہوگا؟

بعض صارفین کا خیال ہے کہ مزاحمتی محاذ کو مضبوط کرتے ہوئے تہران کا ردعمل اسٹریٹجک ہونا چاہیے جب کہ بعض کا یہ کہنا ہے کہ ایران کے لیے فیصلہ کن جواب دینا ضروری ہے اور وہ ایسا ضرور کرے گا۔

ایک صارف نے مارکیٹوں پر صیہونیوں کے ہجوم ہلہ بولنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک ویڈیو شائع کی اور لکھا: ’’اسرائیلی ایران کے ساتھ جنگ ​​سے خوفزدہ ہیں اور اپنی مارکیٹیں خالی کر رہے ہیں۔ “ایک بات یقینی ہے، اور وہ یہ کہ ایرانی ہمیشہ اپنا بدلہ لیتے ہیں۔” اس صارف نے اس بات پر زور دیا کہ صیہونی حکومت نے آگ سے کھیلا ہے اور اسے آگ میں جلنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

ایک اور صارف نے ٹویٹ کیا کہ میں  ایران کے ردعمل اور جوابی حملے کا بے صبری سے انتظار کر رہا ہوں اور  تذبذب کا شکار ہوں کہ آیا ایران کے جوابی حملوں کا نشانہ اسرائیل ہو گا یا امریکہ؟

“منذر نہاری” نامی عرب صارف نے اس حوالے سے لکھا: “میں ترجیح دیتا ہوں کہ ایران کے جوابی ردعمل کے بجائے مزاحمتی محور کی طرف سے جواب جانا بہتر ہے کیونکہ یمن میں انتقامی ردعمل کے دوران امریکہ ناکام ہوا ہے اور طوفان الاقصیٰ کے بعد صیہونی حکومت بھی ناکام ہوئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا: فلسطینی پتھروں کو راکٹ، ڈرون اور ہتھیاروں میں تبدیل کرنے میں ایران کی کامیابی صیہونی حکومت کے خلاف اسٹریٹجک ردعمل کو ریزرو سمجھے جانے کے لیے کافی ہے۔

ایک اور صارف نے اس حوالے سے تاکید کی: ایران اسرائیل کے حملوں کا براہ راست جواب نہیں دیتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسے تہران کو براہ راست جنگ میں لانے کے تل ابیب کے ہدف کو حاصل نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید لکھا: ان حملوں پر ایران کا رد عمل ہمیشہ اسٹریٹجک ہوتا ہے۔ یہ ردعمل سیکورٹی اور ڈیٹرنس کے مساوات میں ایران کے لیے ایک نئی پوزیشن بناتا ہے۔ اس بار ایران کا ردعمل بھی اسی سمت میں ہو گا، یعنی ایک ایسی تبدیلی پیدا کرنا جو اس ملک کے لیے خطے میں نئے قدم جمانے کا جواز فراہم کرے گی۔

ایک اور عربی زبان کے صارف “یوسف حسون نصر اللہ” نے لکھا: جو لوگ صیہونی عارضی حکومت کے خلاف اسلامی ایران کے ردعمل کے منتظر ہیں، میں کہتا ہوں کہ وہ اس ردعمل کا ضرور مشاہدہ کریں گے۔ اس ممکنہ جواب نے اسرائیل کی نیندیں حرام کی ہیں، یہ خوف ایران کے ردعمل کا حصہ ہے۔

“احمد ایاز احمد” نامی یمنی صارف نے اس حوالے سے لکھا: ایران اس جارحیت کا مناسب فوجی اور اسٹریٹجک جواب دے گا۔ یہ ردعمل یقینی ہے اور اس میں تاخیر نہیں کی جائے گی۔ اس کے علاوہ ردعمل کا مطلب یہ ہو گا کہ ایران امریکہ کے ساتھ ایک ایسی جنگ کا سامنا کر رہا ہے جو ان میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا تھا اور یہ تہران کی طرف سے تل ابیب کے مجرموں کو تحفہ ہے۔

ایکس کے ایک کارکن ندال السبا اس حوالے سے لکھتے ہیں: دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے نے ملک کو مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ اگر اس نے اسرائیل کو جواب دیا تو ایک بڑا علاقائی تنازعہ پیدا ہو سکتا ہے، جس پھیلاو کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اگر وہ جواب نہیں دیتا تو وہ اپنی ساکھ کھو دے گا اور اس کی وجہ سے اسرائیل شام میں مزید حملے کرے گا۔ اسرائیل کا ہدف نئی مساواتیں پیدا کرنا ہے اور ایران کا ہدف تنازعات کے قوانین کی حفاظت کرنا ہے۔

“محمد بن روزان” نامی ایک اور یمنی صارف نے اس بارے میں لکھا: اس جارحیت پر ایران کا ردعمل معمولی س نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایک حساب شدہ، طاقتور اور مضبوط ردعمل ہونا چاہیے۔

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس صارف کی طرح بہت سے عرب زبان  صارفین نے ایران کے ردعمل کے خوف سے دنیا کے مختلف ممالک میں اسرائیلی حکومت کے 28 سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی بندش کے حوالے سے صیہونی اخبار “یدیعوت احرونوت” کی خبر کو بڑے پیمانے پر ری ٹویٹ کیا۔

محمد بن روزان” نامی ایک اور یمنی صارف نے اس بارے میں پوسٹ کیا اور لکھا: اس جارحیت پر ایران کا ردعمل عوام کا عام ردعمل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اسے ایک حسابی، طاقتور اور مضبوط ہونا چاہئے۔

“فاؤنڈیشن فار دی ڈیفنس آف ڈیموکریسیز” (FDD) تھنک ٹینک کے سینئر تجزیہ کار “Joe Treusman” کا خیال ہے کہ صیہونی حکومت نے ایرانی قونصل خانے پر حملہ کرنے سے پہلے تہران کے ممکنہ ردعمل کا بغور جائزہ لیا ہے۔ ان کے نقطہ نظر سے، ایران صیہونی حکومت کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریز کرتا ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ پراکسی گروہوں کے ساتھ اپنے صیہونی مخالف مقاصد کو آگے بڑھائے گا۔

نتیجہ

ایکس سوشل پلیٹ فارم کے انگریزی اور عربی صارفین، بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز کی شقوں پر عمل درآمد کے تناظر میں ایرانی قونصل خانے پر صیہونی حکومت کے حملے کے معاملے میں یورپ، امریکہ اور سلامتی کونسل کے دوہرے رویے پر تنقید کرتے نظر آرہے ہیں۔

انہوں نے اس حملے میں نیتن یاہو کے لیے درج ذیل اہداف متعین کئے ہیں۔ پہلا ہدف “تہران کو براہ راست تصادم میں لانا” ہے جو کہ سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ 

صییونی حکومت کے اتحادیوں کو مزاحمتی محور میں کے ساتھ لڑا کر “تصادم کے دائرے کو بڑھانا” تل ابیب کے دیگر مقاصد میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

ایران کے ممکنہ ردعمل کے بارے میں، سوشل میڈیا صارفین ملے جلے خیالات رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ ایران معمولی ردعمل کے خلاف ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ایران کا ردعمل کا حساب شدہ، مضبوط اور طاقتور ہونا چاہیے۔

دوسری طرف وہ بعض صیہونی آباد کاروں کے موجودہ خوف کو تہران کی جانب سے مناسب ردعمل سمجھتے ہوئے اس خوف کی لہر میں مزید اضافے کی تجویز کرتے ہیں۔ 

جب کہ بعض کا یہ خیال ہے کہ تہران کو صیہونی حکومت کے ساتھ براہ راست جنگ کے جال میں نہیں پھنسنا چاہیے بلکہ مزاحمت کے محور کو مضبوط کرنا بہترین حکمت عملی اور حسابی ردعمل ہے۔ ایک ایسی حکمت عملی کہ جو اب تک کامیاب رہی ہے،جس نے ایک طرف امریکہ کو یمن کے ساتھ جب کہ دوسری طرف صیہونی حکومت کو کئی محاذوں میں الجھایا ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *