[]
مہر نیوز کے مطابق، امریکی صحافی مارک گلین نے کہا کہ ایران کے اسلامی انقلاب کے چند ماہ بعد (اگست 1979) میں بانی انقلاب حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم قدس کے طور پر منانے کا اعلان کرتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ وہ فلسطین کے مظلوم عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے حقوق کا دفاع کریں۔
جس کے بعد سے ایران اور دیگر ممالک میں اس دن فلسطینیوں سے یکجہتی کے اظہار کے لیے بڑے پیمانے پر ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔
اس سال یوم القدس پوری دنیا میں زیادہ نمایاں طور پر منایا جانے لگا ہے کیونکہ دنیا کی مختلف اقوام کی طرف سے فلسطینیوں کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔
حالیہ مہینوں میں، دنیا بھر سے لوگوں نے فلسطینیوں کی حمایت میں متعدد مظاہرے کیے جو اسرائیل کی ناجائز جنگ کی زد میں ہیں۔
7 اکتوبر کو جب حماس نے فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے 76 سالوں سے جاری شدید مظالم کے ردعمل میں قابض رجیم کے خلاف ایک بے مثال کارروائی کی تو تل ابیب نے غزہ کا محاصرہ کرنے کے بعد وحشیانہ جنگ شروع کی۔
اسرائیل نے گنجان آباد علاقے کا مکمل محاصرہ کرتے ہوئے وہاں رہنے والے بیس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کا ایندھن، بجلی، خوراک اور پانی بند کر دیا ہے۔
امریکی صحافی مارک گلین نے یوم القدس کے موقع پر مہر نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے علاقائی مساوات کو بدلنے اور نیو ورلڈ آرڈر کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر انقلاب اسلامی کے کردار پر روشنی ڈالی۔
مارک گلین: 1979 کے اسلامی انقلاب نے مشرق وسطیٰ میں ‘علاقائی مساوات’ کی تبدیلی میں جو کردار ادا کیا اس کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے، سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ صہیونیت، منظم یہودی قوتوں اور مغرب کا اس عفریت کو جسے ‘یہودی ریاست’ کہا جاتا ہے، جنم دینے کا مقصد کیا تھا؟
اس سوال کے جواب کو سمجھنے کے لئے یہودیوں کے بنائے گئے ‘نیو ورلڈ آرڈر’ کے بنیادی اہداف کا تنقیدی جائزہ لینا ہوگا جس کے چند اہم نکات کی طرف ذیل میں یہودی مذہبی کتابوں کی روشنی میں اشارہ کیا جائے گا۔
مثال کے طور پر ملاحظہ ہو: ‘اس دن رب نے عہد باندھا، ‘میں تمہاری اولاد کو یہ زمین دوں گا، مصر کے دریا سے لے کر دریائے فرات تک’… – پیدائش، 15:18
‘ہر وہ جگہ جس پر تیرے پاؤں کا تلوا چلے گا، بیابان سے، لبنان سے، دریائے فرات سے، یہاں تک کہ بحر ہند تک، تیری سرحد ہوگی…’ “استثنا”
‘غیر (یہودی) قومیں اور ان کے بادشاہ تمہاری خدمت کریں گے، جیسا کہ تمہارے دروازے دن رات کھلے رہتے ہیں، تاکہ پردیسیوں کی دولت تمہارے قدموں پر رکھ دی جائے جب کہ ان کے بادشاہ تمہارے سامنے کورنش بجا لائیں، “یسعیاہ کی کتاب”
اس طرح کی بہت سی ‘پیشگوئیوں’ میں سے صرف چند کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو شیطانی، خدا مخالف اور انسان دشمن صیہونی یہودیت کی پیروی کرنے والوں کے ذہن میں ہیں-
نیل سے فرات تک پھیلی ہوئی ایک مطلق العنان سلطنت کی تشکیل کہ جس کا صدر دفتر یروشلم ہوگا، جہاں سے دنیا کی تمام قوموں پر اثر انداز ہونے والے فیصلے یہوداہ کے قبیلے کی رکنیت کا دعوی کرنے والوں کے ذریعے کیے جائیں گے۔
جو قومیں ان احکام کے سامنے جھکنے سے انکاری ہوں گی، بالکل اسی طرح تباہ ہو جائیں گی، جس طرح دنیا نے فلسطین، عراق، لیبیا کی قوم کو دیکھا کہ جنہیں صہیونیت کے شیطانی اور جنونی پیروکاروں نے تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر ایران اپنے 1979 کے اسلامی انقلاب میں کامیاب نہ ہوتا، تو وہ شیطانی منصوبے جن کو حاصل کرنے کے لیے یہ صیہونی عناصر ہزاروں سالوں سے کوشش کر رہے ہیں، وہ ان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہوتے۔
تاہم 1979 میں ‘منصوبوں کا تلپٹ ہونا’ ایک غیر متوقع ڈراؤنا خواب تھا جس کی صیہونیت کے جنونی پیروکاروں کو توقع نہیں تھی اور جسے وہ بجا طور پر ‘نیو ورلڈ آرڈر’ کے نام سے جانے والے اپنے ‘بلیو پرنٹ’ کے لیے ایک وجودی خطرے کے طور پر دیکھتے تھے۔
وہ لوگ جس چیز سے سب سے زیادہ ڈرتے ہیں وہ ایران کے اسلامی انقلاب کی اینٹی بائیوٹک خصوصیات ہیں جو صیہونیت کے مہلک اور خطرناک جراثیم کے خلاف مزاحمت کا نسخہ پیش کرتی ہیں، یہ ایک ایسی ‘دوا’ اور ‘تھراپی’ ہے جس کے ذریعے دنیا بھر کے تمام لوگ اپنی قوموں کو بیماریوں اور مشکلات سے نجات دے سکتے ہیں۔
صہیونیت در اصل انسان کی روح کو تباہ کرنے والی چھوت کی بیماری ہے جس کا آغاز مشرق وسطیٰ کے لوگوں سے ہوتا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اگر خطے کے تمام لوگ یعنی سنی، شیعہ، عیسائی، ایران کے ااسلامی انقلاب کے یکساں اصولوں کو اپناتے اور اس کے نتیجے میں مغرب کے عسکری، سیاسی اور ثقافتی غلبے کا مقابلہ کیا جاتا تو یقینا اس نسل پرست یہودی ریاست کا ناجائز وجود اب تک قائم نہ رہتا۔