عالمی یوم القدس، صہیونی حکومت اندرونی اور بیرونی بحرانوں کے بھنور میں

[]

مہر خبررساں ایجنسی کی خصوصی رپورٹ؛ ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی سطح پر یوم القدس منایا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں گذشتہ چھے مہینوں سے صہیونی حکومت کے ظلم و بربریت کا شکار فلسطینیوں کے حق میں صدائے احتجاج بلند کیا جائے گا۔ صہیونی فورسز نے غزہ میں مظالم کے پہاڑ توڑتے ہوئے طوفان الاقصی کے بعد ہونے والے حملوں میں تقریبا 33 ہزار فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

اس عرصے میں صہیونی حکومت اپنے اہداف میں مکمل ناکام رہی ہےعلاوہ ازین داخلی اور بیرونی محاذوں پر متعدد بحرانوں کا سامنا ہے۔
 

غزہ کی جنگ اور اقتصادی تنزلی

طوفان الاقصی سے پہلے ہی صہیونی حکومت کو اقتصادی مشکلات کا سامنا تھا۔ شرح سود میں اضافہ، عوامی ہڑتال اور دیگر وجوہات کی بناپر گذشتہ ایک سال کے اندر سرمایہ بیرون ملک جانے کی شرح میں 10 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ طوفان الاقصی کے بعد بیروزگاری میں اضافے کی وجہ سے ڈھائی لاکھ افراد نے بیروزگاری الاونس کی درخواست جمع کرائی ہے۔

ملک میں سیاحت کا شعبہ ابتری کا شکار ہے۔ 73 فیصد سیاحت میں کمی آئی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں بحران اور ملکی کرنسی کی قدر میں کمی سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔

ماہرین کے مطابق صہیونی حکومت کی معاشی مشکلات کی ایک اہم وجہ یمنی فوج کے حملے ہیں۔ صہیونی بندرگاہوں تک پہنچنے کے لئے کشتیوں کو جنوبی افریقہ کے راستے سے ہوکر آنے کی وجہ سے تقریبا 13 ہزار کلومیٹر لمبا راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔ باب المندب بند ہونے کی وجہ سے صہیونی حکومت کے اخراجات میں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

سیاسی بحران اور کابینہ میں کشیدگی

غزہ کی جنگ اور معاشی مشکلات کی وجہ سے نتن یاہو کی کابینہ میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ حماس کو ختم کرنے اور صہیونی یرغمالیوں کی رہائی میں ناکامی کے بعد صہیونی حکومت حماس کے ساتھ مذاکرات پر مجبور ہوگئی ہے۔ نتن یاہو اپنی کابینہ کو بچانے کے لئے غزہ کی جنگ جاری رکھنے پر مصر ہیں۔

اپوزیشن لیڈر یائیر لاپیڈ نے کئی مرتبہ الزام لگایا ہے کہ نتن یاہو اپنی سیاسی بقا کے لئے غزہ پر حملے جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سیاسی بحران کو ختم کرنے کے لئے نتن یاہو کو معزول کو فوری عام انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔

حالیہ ایام میں ہونے والے سروے کے مطابق اس وقت انتخابات ہونے کی صورت میں نتن یاہو کی جماعت کو شکست اور اپوزیشن کو اکثریت کے ساتھ فتح ملے گی۔

طوفان الاقصی اور صہیونیوں کی آبائی وطن واپسی

1948 کے بعد سے صہیونی رہنماوں نے دنیا کے مختلف ممالک سے یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کے لئے کوششیں کی ہیں۔ فلسطینی قصبوں پر قبضے کے بعد صہیونی کالونیاں بنائی گئیں تاکہ صہیونی مہاجرین کو ان میں بسایاجائے۔ طوفان الاقصی کے بعد مختلف ممالک سے آنے والے یہودیوں نے اسرائیل کو چھوڑنے کا تہیہ کرلیا ہے۔ وہ موقع ملنے پر اسرائیل چھوڑ کر آبائی ممالک واپس جانا چاہتے ہیں۔ گذشتہ چھے مہینوں کے دوران اس میں اضافہ ہوا ہے۔

غزہ کی جنگ سے پہلے ہی اسرائیل کے اندرنی مسائل کی وجہ سے مہاجرین کی واپسی کا عمل شروع ہوا تھا تاہم طوفان الاقصی کے بعد مقاومت کے ہاتھوں ہونے والے ہزیمت نے اس سلسلے کو مزید تیز کردیا ہے۔ جنوبی لبنان سے حزب اللہ کے حملوں کی وجہ سے سرحد پر واقع 43 صہیونی قصبے خالی ہوگئے ہیں جبکہ وہاں رہائش پذیر 2 لاکھ 30 ہزار صہیونی بے گھر ہوگئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے وعدوں کے باوجود ان قصبے کے یہودی واپس آنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

حریدی یہودیوں نے نتن یاہو حکومت کو دھمکی دی ہے کہ فوج میں ان کے جوانوں کی جبری بھرتی کا سلسلہ نہ رکا تو اجتماعی طور پر اسرائیل چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ اسحاق یوسف کے اس بیان سے نتن یاہو کے لئے نئی مشکل پید اہوگئی ہے۔

عالمی سطح پر تنقید اور مذمت

غزہ پر جارحیت اور فلسطینی عوام کے قتل عام کی وجہ سے دنیا بھر میں صہیونی حکومت کے خلاف نفرت کی لہر پیدا ہوگئی ہے۔ غزہ کے محاصرے اور وہاں درپیش قحط سالی کی وجہ سے سو سے زائد ممالک میں صہیونی حکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔ عالمی ادارے اور حکومتی شخصیات نے بھی اسرائیل کے اقدامات کی مذمت کی ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے صہیونی حکومت کے خلاف فیصلہ سنادیا ہے۔

جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر مقدمے کی سماعت کے بعد عدالت نے اسرائیل کو حکم دیا ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کو ختم کرکے ایک مہینے کے اندر ہونےوالی پیشرفت کے بارے میں عدالت کو رپورٹ پیش کرے۔عدالت نے صہیونی حکومت کے بعض اقدامات کو اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی قرار دیا۔

مبصرین کے مطابق عالمی عدالت کا فیصلہ نتن یاہو کے لئے انتہائی مشکلات پیدا کرے گا۔ یہ فیصلہ بین الاقوامی سطح پر صہیونی حکومت کے امیج کو مزید متاثر کرے گا۔ مغربی ممالک اس فیصلے کو بنیاد بناکر نتن یاہو کی جانب سے ہونے والی امداد کی درخواست کو مسترد کرسکتے ہیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *