[]
از۔ ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی
حضرت یونس علیہ السلام کی بابت تاریخ ابن کثیر میں لکھا گیا ہے کہ ان کو ایک وحی کے ذریعہ حکم ہوا کہ وہ موصل میں واقع نینوا کے شہر میں جا کر وہاں کے لوگوں کو سرکشی سے باز رہنے کی ہدایت دیں۔ حضرت یونسؑ کو اس حکم کو بجا لانے میں کچھ ڈر محسوس ہوا اور وہ مقام ترسیس جانے والی ایک کشتی میں بیٹھ کر کوچ کر گئے تا کہ نینوا کے سرکش لوگوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
کشتی کا سمندر کے وسط میں پہنچنا تھا کہ وہ ایک زبردست طوفان میں پھنس گئی۔ اس طوفانی آفت سے بچاؤ کے لئے کشتی کے مالک نے پہلے تو وزنی سامان سمندر میں پھینک دیا لیکن جب اس کے باوجود کشتی ڈوبنے کے خطرہ سے دو چاررہی تو قرعہ ڈالا گیا اور حضرت یونسؑ کا نام نکلنے پر ان کو بھی سمندر کے حوالے کر دیا گیا۔
طوفان تھم گیا اور حضرت یونسؑ کو ایک بڑی مچھلی نے نگل لیا۔ اس کے پیٹ میں آپ تین دن تک زندہ سلامت رہے اور اپنی کوتاہیوں اور فرائض سے فرار ہونے کی غلطیوں کی معافی مانگتے رہے جو قبول ہوئی۔ کمزور و ناتواں حضرت یونسؑ پر ایک لوکی (کدو) کی بیل کا سایہ کر دیا گیا تا کہ آپ دھوپ کی تمازت سے محفوظ رہیں۔
تندرست ہونے کے بعد آپ نینوا تشریف لے گئے اور وہاں سے لوگوں کو جن کی آبادی ایک لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل تھی، سرکشی اور گناہ سے باز رکھنے میں کامیاب ہوگئے اور اس طرح خدا کا عذاب جو نینوا پر آنے والا تھا ٹل گیا۔
حضرت یونسؑ سے متعلق یہ واقعہ قرآن کریم کی سورۃ الصّٰفت میں اس طرح بیان ہوا ہے۔
ترجمہ: اور بیشک یونس پیغمبروں میں سے تھے (اس وقت کا قصہ یاد کیجئے) جب وہ بھاگ کر بھری ہوئی کشتی کے پاس پہنچے، پھر وہ شریک قرعہ ہوئے تو مجرم قرار پائے، انہیں مچھلی نے نگل لیا اور آنحالانکہ وہ اپنے کو ملامت کرتے رہے۔ سو اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں نہ ہوتے تو اس کے پیٹ میں قیامت تک رہتے۔ پھر ہم نے ان کو ایک میدان میں ڈال دیا اور ہم نے ان پر ایک بیل دار درخت اگادیا (آیت نمبر 139 تا 146) تفسیر ماجدی۔
تفسیر ماجدی میں تحریر ہے کہ کچھ لوگوں کے خیال میں حضرت یونسؑ کا یہ واقعہ بحیرہ روم میں ہوا تھا لیکن بعض علماء کے نزدیک اس کا تعلق دجلہ کے علاقہ سے ہے جہاں شارک قسم کی عظیم الجثہ مچھلیاں زمانہ حال میں بھی دیکھی گئیں جو انسان کو آسانی سے نگل سکتی ہیں۔
مندرجہ بالا قرآنی آیات میں بیل دار درخت کے لئے شجرة من يقطين ارشاد ہوا ہے جس کی بابت مولانا مودودی ( تفسیر القرآن۔ حاشیہ 83) یوں رقم طراز ہیں: یقطین عربی زبان میں ایسے درخت کو کہتے ہیں جو کسی تنے پر کھڑا نہیں ہوتا بلکہ بیل کی شکل میں پھیلتا ہے جیسے کدو۔ تربوز، ککڑی وغیرہ۔
بہرحال وہاں کوئی ایسی بیل معجزانہ طریقہ پر پیدا کر دی گئی جس کے پتے حضرت یونسؑ پر سایہ کریں اور جس کے پھل ان کے لئے بیک وقت غذا کا بھی کام دیں اور پانی کا بھی۔
مولانا حقانی نے سورۃ الصفت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ مچھلی نے لقمہ کر لیا اور پھر اگل دیا۔ چانچہ بیمار ہوگئے اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان پر چھاؤں کرنے کو کدو کی قسم کا ایک پیڑ اگا دیا۔
این جے داؤد اور جناب پکتھال نے قرآن پاک کے انگریزی تراجم میں یقطین کو Gourd لکھا ہے جس کے معنی لوکی کے ہوتے ہیں۔ عبداللہ یوسف علی نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے Spreading plant of Gourd Kind – مولانا اشرف علی تھانوی کے ترجمہ میں بیل دار درخت تحریر ہوا ہے جبکہ حضرت رفیع الدین محدث دہلوی اور مولا نا فتح محمد جالندھری نے یقطین کا ترجمہ لفظ کدو سے کیا ہے۔ غرضیکہ انگریزی کے تراجم میں یقطین کو Gourd کہا گیا ہے اور اُردو کے تراجم اور تفاسیر میں کدو بتایا گیا ہے۔
کدو فارسی لفظ ہے جس کے معنی اُردو اور ہندی میں لوکی کے ہوتے ہیں۔ ویسے دال (د) پر تشدید لگنے کے بعد جو لفظ کدو کہلاتا ہے، اسے عام طور پر کمڑھا کہتے ہیں۔ اس طرح یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ فارسی اور اُردو کی تفاسیر میں کدو کا مفہوم لوکی سے ہے نہ کہ کمڑ ھے (کدو) سے۔
لوکی کا نباتاتی نام Legenaria siceraria جبکہ کدو بمعنی کمڑھا کا نام Cucurbitacea pepo ہے۔ یہ دونوں ہی بڑے پتوں کی بیلیں ہوتی ہیں جن کا تعلق Cucurbitacea pepo خاندان سے ہے۔ لوکی کی کاشت زمانہ قدیم سے ہندوستان، ایران اور عرب کے مختلف علاقوں میں کی جاتی ہے۔ جبکہ کدو کا اصل وطن امریکہ ہے لہٰذا اس کی کاشت کا چلن بہت بعد میں یعنی چند سوسال قبل اس وقت ہوا جب یوروپ کے لوگوں نے امریکہ دریافت کیا۔
اس طرح یہ بات یقینی طور سے کہی جاسکتی ہے کہ حضرت یونسؑ کے زمانہ میں جس بیل کے پیدا کئے جانے کا ذکر قرآن پاک میں ہوا ہے وہ کدو بہ معنی لوکی تھی نہ کہ کدو بمعنی کمڑھا۔
لوکی کو عربی میں یقطین کے علاوہ الدبّا اور قرعۃ بھی کہتے ہیں۔ انگریزی میں اس کا نام Gourd ہے۔ بعض دوسری زبانوں میں لوکی کے نام درج ذیل ہیں:
Gourde فرانسیسی۔ Cucurbita لاطینی۔ Zucca اطالوی۔ Kolokpenth یونانی۔ Teekva روسی۔ Kikayon عبرانی۔ Koshmand سنسکرت۔
لوکی کی کئی قسمیں ہندوستان میں پیدا کی جاتی ہیں جس میں سب سے مقبول لمبی لوکی ہے جس کو Bottle Gourd کہتے ہیں۔ ایک دوسری قسم گول لوکی کی ہے جس کی صراحی دار گردن ہوتی ہے اُسے ہندوستان کے کچھ علاقوں میں لوگ خشک کر کے کمنڈل بنا لیتے ہیں۔ ایک تیسری قسم ہے جو ستار یا تانپورا بنانے کے کام آتی ہے
Gourd کے نام سے لوکی کا ذکر بائبل میں بھی ایک بار حضرت یونسؑ کے ضمن میں آیا ہے۔ اس کا بائبل کے Authorized Version میں Kikoyan یا Kikojon کے نام سے تذکرہ کیا گیا ہے جس کا ترجمہ Palma Christi کے نام سے ہوا ہے۔ پاما کرسٹی کا نباتاتی نام Ricinus communis ہے جسے ہندوستانی زبانوں میں ارنڈی اور عربی میں خرد کہتے ہیں۔
اس کے پتے بہت بڑے اور سایہ دار ہوتے ہیں ، اس کے بیج Castor Oil کا ذریعہ ہیں۔ یہ درخت ایران، افغانستان اور عرب کے کچھ علاقوں میں چھوٹی اور گھنی جھاڑی کی شکل میں پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں یہ ایک بڑے درخت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
قرآنی ارشاد (سورۃ الصفت ۔ آیت 146) کی رو سے جو پودہ حضرت یونسؑ کے لئے پیدا کیا گیا وہ شجر من یقطین تھا۔ گویا کہ اس کا بیل دار پودا ہونا یقینی طور سے ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآنی حوالہ نہ تو ارنڈی کے درخت ( جھاڑی) کی جانب ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے پیڑ کی طرف۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کوئی درخت ہو جس پر بیل چڑھی ہو اور سایہ دیتی ہو۔ ویسے بائبل کے زیادہ تر حالیہ محققین نے Kikayon کا مفہوم اصلی Gourd یعنی لوکی سے لیا ہے اور کدو اور ارنڈی کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔
لوکی ایک نہایت مفید ترکاری ہے جس میں عمدہ قسم کا Pectin ہوتا ہے جو معدہ اور ہاضمہ کے لئے نہایت فائدہ مند ہے۔ کیمیائی اعتبار سے لوکی دوسری ترکاریوں سے بہتر ہے کیونکہ اس میں وٹامن E اور وٹامن C کے علاوہ کیلشیم، فاسفورس، آئرن اور آیوڈین جیسی دھاتیں ملتی ہیں۔ لوکی کی تاثیر سرد ہے۔ یہ پیشاب آور ہونے کے ساتھ ساتھ صفراوی کیفیت کو ختم کرتی اور مزاج میں چڑ چڑے پن کو دور کرتی ہے۔ لوکی کے عرق کو لیموں میں ملا کر چہرے پر لگانے سے مہا سے جاتے رہتے ہیں۔
تیل میں اُبالی ہوئی لوکی گھٹیا کا علاج ہے۔ اس کے بیجوں کا تیل سر کے درد میں فائدہ کرتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو لوکی کی ترکاری بہت مرغوب تھی۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں۔ ”حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو الدبا مرغوب تھا، ایک مرتبہ حضور کسی دعوت میں تشریف لے گئے جس میں کدو (لوکی) تھا۔ چونکہ مجھے معلوم تھا کہ آپ کو یہ بہت پسند ہے، اس لئے اس کے قتلے ڈھونڈ ڈھونڈ کر حضور کے سامنے کر دیتا تھا (شمائل ترمذی 83)۔ ایک دوسری حدیث (بخاری کتاب الاطعمه 3) میں حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ایک درزی نے دعوت میں حضورﷺ کی خدمت میں لوکی (دبا) پیش کی (پکی ہوئی)۔ آپ نے اُسے تناول فرمایا۔ اسی روز سے میں اسے برابر پسند کرتا ہوں ۔
درج ذیل چند کھانے کی اشیاء ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو لوکی کے علاوہ پسند تھے۔
کھجوریں: قبض کے لئے مفید ہے۔ قرآن: سور نمل سمیت بہت سے حوالہ جات
جو: نبی کریم ﷺ نے جو کو گندم پر ترجیح دی۔ گندم شام سے درآمد کیا گیا تھا اور جو کے مقابلہ قیمتی تھا۔ حدیث: غم کا علاج۔ (بخاری)
سرکہ: بلڈ پریشر، کولیسٹرول لیول اور ڈپریشن کو کنٹرول کرتا ہے۔
انجیر: دودھ پلانے والی ماؤں کے لئے مفید ہے۔ اینٹی السر اور اینٹی بیکٹیریل۔ قرآن (سورتین) ’’قسم ہے انجیر اور زیتون کی۔‘‘ دودھ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ۔ کیلشیم فراہم کرتا ہے۔ قرآن: پینے والوں کے لئے لذیذ ہے۔ (سورۃ النحل)
مشروم: وٹامنز، معدنیات اور فائبر کا بہترین ذریعہ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ- حدیث: ’’اللہ کی نعمتوں میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کو شفا دیتا ہے۔ (بخاری)
انگور: قبض میں آرام دیتا ہے۔ دل کی بیماری کے خطرے کو کم کرتا ہے۔ عام طور پر نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے صحابہ پیش کیا کرتے تھے۔
زیتون کا تیل: دل کی بیماری کے خطرے کو کم کرتا ہے، پستان کے کینسر کے خطرہ کو کم کرتا ہے، پٹھوں کو مضبوط کرتا ہے۔ قرآن : اللہ نے اسے مبارک درخت بھی کہا ہے۔ (قرآن 35:24)
شہد: گٹھیا کے لئے اچھا ہے۔ بھوک پیدا کرتا ہے۔ حدیث: ”میں تمہارے علاج کے طور پر قرآن اور شہد تجویز کرتا ہوا ۔ (بخاری)