[]
اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ کے پس منظر میں اسرائیلی جنگی کابینہ کے رکن بینی گینٹس اس وقت مذاکرات کے لیے امریکہ کے دورے پر ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ کے پس منظر میں اسرائیلی جنگی کابینہ کے رکن بینی گینٹس اس وقت مذاکرات کے لیے امریکہ کے دورے پر ہیں، جس کے لیے مختلف رپورٹوں کے مطابق انہوں نے وزیر اعظم بینجمن ’نیتن یاہو سے اجازت‘ نہیں لی۔بینی گینٹس اسرائیل کی فوج کے ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ہیں، جو مئی 2020ء سے لے کر دسمبر 2022ء تک ملکی وزیر دفاع بھی رہے ہیں۔ حماس کے ساتھ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی اسرائیلی وزیر اعطم نیتن یاہو نے اپنی جو جنگی کابینہ تشکیل دی تھی، اس میں انہوں نے بینی گینٹس کو بھی شامل کیا تھا۔
گینٹس کی سیاسی جماعت نیشنل یونٹی پارٹی کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ وہ اس وقت امریکہ کے جس دورے پر ہیں، اس دوران وہ امریکی نائب صدر کملا ہیرس اور صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ واشنگٹن میں اپنے قیام کے دوران گینٹس آج منگل کے روز امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے بھی ملنا ہے۔ اس اسرائیلی سیاستدان نے اپنے امریکی دورے کا آغاز اتوار تین مارچ کو کیا تھا، جب انہوں نے امریکی اسرائیلی پبلک افیئرز کمیٹی کے عہدیداروں سے ملاقات کی تھی۔
گینٹس کا دورہ اسرائیلی سیاست میں مزید تناؤ کا سبب
بینی گینٹس ایک ایسے وقت پر امریکہ کے دورے پر ہیں، جب اسرائیل اور حماس کے مابین گزشتہ برس سات اکتوبر سے جاری جنگ میں وزیر اعظم نیتن یاہو کے فیصلوں کی وجہ سے امریکہ اور اسرائیلی حکومت کے مابین کھچاؤ پایا جاتا ہے۔ اس کھچاؤ کی وجہ وہ ممکنہ اقدامات بھی ہیں جو اسرائیل کو غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے میں شہری ہلاکتوں میں کمی کے لیے کرنا چاہییں اور ساتھ ہی نیتن یاہو کا وہ منصوبہ بھی جو انہوں نے غزہ کی جنگ کے آئندہ خاتمے کے بعد غزہ پٹی میں مستقبل کی حکمرانی کے حوالے سے بنایا ہے۔
گینٹس کے اس دورے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس کے لیے بظاہر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے قبل از وقت اجازت نہیں لی تھی۔ خبر رساں ادارے اے پی نے نام لیے بغیر ایک اعلیٰ اسرائیلی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بینی گینٹس کا وزیر اعطم نیتن یاہو سے اجازت لیے بغیر وزارتی حیثیت میں اس سیاسی دورے پر امریکہ جانا اس امر کی طرف سے ایک اور اشارہ ہے کہ موجودہ اسرائیلی حکومت میں کس حد تک داخلی تقسیم پائی جاتی ہے۔
سات اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے اسرائیل میں حملے میں تقریباﹰ ساڑھے گیارہ سو افراد مارے گئے تھے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ اس کے علاوہ حماس کے جنگجو جاتے ہوئے تقریباﹰ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ پٹی بھی لے گئے تھے۔ ان میں سے بہت سے گزشتہ فائر بندی کے دوران حماس نے رہا کر دیے تھے جبکہ اسرائیل نے بھی اپنے ہاں جیلوں میں بند بہت سے فلسطینیوں کو بھی رہا کر دیا تھا۔
اسی دوران اسرائیلی فضائی اور زمینی عسکری کارروائیوں میں غزہ میں وزارت صحت کے مطابق اب تک 30 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں بہت بڑی اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔ دریں اثنا یرغمالی بنائے گئے اسرائیلیوں میں سے ابھی تک سو سے زائد افراد حماس کی قید میں ہیں اور ان کے لواحقین کی طرف سے نیتن یاہو حکومت پر شدید دباؤ ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح ان یرغمالیوں کی اسرائیل واپسی کو یقینی بنائے۔
ان یرغمالیوں کے لواحقین کا نیتن یاہو حکومت سے شکوہ یہ ہے کہ وہ مبینہ طور پر اپنی وہ تمام تر کوششیں نہیں کر رہی، جو وہ ان یرغمالیوں کی زندہ واپسی کے لیے کر سکتی ہے یا اسے کرنا چاہییں۔ اس تناظر میں نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے یہ بھی لکھا ہے کہ نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ پارٹی کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق وزیر اعطم نیتن یاہو کی بینی گینٹس کے ساتھ کافی ”سخت گفتگو‘‘ بھی ہوئی، جس میں اسرائیلی سربراہ حکومت نے اپنے اعتدال پسند سیاسی حریف بینی گینٹس کو بتایا تھا کہ اسرائیل میں ”صرف ایک ہی وزیر اعظم‘‘ ہے اور وہ نیتن یاہو خود ہیں۔
اسرائیل میں نیتن یاہو حکومت کے لیے یہ بات خوش کن نہیں رہی ہو گی کہ امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے کل اتوار کے روز امریکی ریاست آلاباما میں سیلما کے مقام پر ”بلڈی سنڈے‘‘ نامی دن کی 59 ویں برسی کے موقع پر اپنے خطاب میں مطالبہ کیا کہ غزہ کی جنگ میں ”فوری طور پر فائر بندی کی جانا چاہیے۔‘‘ کملا ہیرس کا کہنا تھا، ”غزہ پٹی میں انسانی مصائب کی شدت اور پھیلاؤ کے پیش نظر اس جنگ میں کم از کم بھی چھ ہفتے دورانیے کی فوری فائر بندی ہونا چاہیے، اور یہی وہ مطالبہ ہے جو اس وقت مذاکرات کی میز پر بھی ہے۔‘‘
امریکی نائب صدر نے اپنی تقریر میں مزید کہا، ”غزہ پٹی کے علاقے میں لوگ فاقوں پر مجبور ہیں۔ وہاں کی صورت حال غیر انسانی نوعیت کی ہو چکی ہے۔ انسان دوستی کے ہمارے بنیادی تصورات ہمیں مجبور کر رہے ہیں کہ اسرائیلی حکومت کو لازمی طور پر ایسے مزید اقدامات کرنا چاہییں، جن کے ذریعے غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل میں واضح اضافہ کیا جا سکے۔‘‘
اسرائیل اور حماس کے مابین جس جنگ کو اب تقریباﹰ پانچ ماہ ہونے کو ہیں، اس کی وجہ سے اسرائیل اور لبنان کے درمیان سرحدی علاقوں میں بھی کافی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ حماس اور فلسطینیوں کی حمایت میں لبنان میں ایران نواز حزب اللہ ملیشیا کی طرف سے اسرائیل کے سرحدی علاقوں میں کیے جانے والے حملے بھی ہیں اور جواباﹰ اسرائیل کی طرف سے لبنان میں کی جانے والی فضائی کارروائیاں بھی۔ اس پس منظر میں اب امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینیئر مشیر آموس ہوخ شٹائن آج پیر کے روز اس لیے لبنانی دارالحکومت بیروت پہنچ رہے ہیں کہ وہاں ملکی قیادت سے بات چیت کر کے لبنانی اسرائیلی سرحد پر کشیدگی میں کمی کی کوششیں کر سکیں۔
حزب اللہ کی طرف سے حال ہی میں ایک بار پھر کہا جا چکا ہے کہ جب تک اسرائیل غزہ پٹی میں فائر بندی نہیں کرتا، تب تک حزب اللہ بھی اپنی عسکری کارروائیاں جاری رکھے گی۔ ساتھ ہی اس لبنانی تحریک کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک مرتبہ اگر غزہ میں سیز فائر ڈیل ہوگئی، تو وہ بھی اپنی طرف سے اس کا احترام کرتے ہوئے اسرائیل پر حملے بند کر دے گی۔ دوسری طرف اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے ایک بار پھر کہا ہے کہ اگر غزہ میں فائر بندی معاہدہ ہو بھی گیا، تو بھی لبنان میں حزب اللہ کے اہداف پر اسرائیلی حملے نہ صرف جاری رہیں گے بلکہ وہ پہلے کے مقابلے میں شدید تر بھی ہو جائیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;