تعلقی اور قطع رحمی

[]

سوال:- میرے ایک سگے چچا ہیں، ان کے اور میرے والد کے تعلقات تقریبا تیس سال سے منقطع ہیں، کئی تقریبات کے مواقع پر میرے والد نے پہل کرتے ہوئے ان سے شرکت کی درخواست کی ، لیکن انہوں نے صاف کہہ دیا کہ میرا تمہارا کوئی رشتہ نہیں،ہمارے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ اب ہم انہیں کسی تقریب میں مدعو نہ کریں ، کیوں کہ اول تو ان کے سر پر قطع رحمی کا گناہ ہے ، اور پھر ہماری جانب سے صلہ رحمی کے پیش کش کو ٹھکرا دینے کا گناہ بھی ہورہا ہے ؟(عبدالقیوم انصاری، حشمت پیٹ )

جواب:- حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ تین شب و روز سے زیادہ اپنے بھائی سے ترک کلام کرے ، جب دونوں ملیں تو وہ اُدھر چہرہ پھیر لے اور یہ اِدھر ، اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے (صحیح مسلم : ۲/۳۱۶ )

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی مسلمان سے بے تعلقی قطعا جائز نہیں، اگر کسی غیر معمولی واقعہ کی وجہ سے جذبات مشتعل ہوں ، جب بھی تین دنوں سے زیادہ یہ کیفیت برقرار نہیں رہنی چاہئے ، نیز جو اس تعطل کو توڑنے میں پہل کرے وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں زیادہ بہتر شخص ہے ،

چنانچہ امام نووی ؒ نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص سلام کرتا رہے تو اس کو تارک تعلق نہیں سمجھا جائے گا ، اور وہ گناہ گار نہیں ہوگا : إن السلام یقطع الھجرۃ و یرفع الإثم فیھا و یزیلہ (شرح نووی علی صحیح مسلم:۲؍۳۱۶)

اس لیے آپ لوگوں کا ان کو مدعو کرنا آپ کے لیے باعث اجر و ثواب ہے ، جب بھی ملاقات ہو آپ سلام میں پہل کرنے کی کوشش کریں ، ممکن ہے بار بار کے اس یکطرفہ سلوک سے متاثر ہوکر ان کے رویہ میں تبدیلی آجائے ، آپ انہیں بلانا نہ چھوڑیں تاکہ آپ تو قطع رحمی اور ایک مسلمان سے بے تعلقی کے گناہ سے محفوظ رہ سکیں ۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *