[]
سوال:- حافظہ لڑکیوں کے قرآن کی حفاظت کے لئے اپنے ہی مکان میں موجود خواتین کو جوڑ کر جماعت کے ساتھ تراویح پڑھانے کی شرعا گنجائش ہے یا نہیں ؟ اگر گھر میں خواتین نہ ہوں، تو کیا پڑوسی خواتین بلا اعلان جمع ہو کر اس طرح تراویح پڑھ سکتی ہیں یا نہیں ؟ غالبا مسائل تراویح (ترتیب : مفتی رفعت قاسمی ) میں مولانا عبد الحئی صاحب کے حوالہ سے اس کی اجازت دی ہے، آپ کی کیا رائے ہے ؟ (حافظہ تسنیم، خواجہ باغ)
جواب:- اگر خواتین اپنی جماعت بنا کر نماز پڑھ لیں، تو نماز کے درست ہوجانے پر تو جمہور کا اتفاق ہے، علامہ ابن ہمام ؒ بڑے محقق، فقیہ اور محدث ہیں،وہ تو اس سلسلہ میں اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں : فإنھن لو صلین جماعۃ جازت بالإجماع (فتح القدیر:۱؍۳۰۶) مگر اجماع کا دعویٰ محل نظر ہے، مالکیہ کے یہاں خواتین کی جماعت جائز نہیں؛ (الخرشی: ۲؍۱۴۵) البتہ اس میں شبہہ نہیں کہ خواتین کی جماعت کا اہتمام بہتر نہیں ہے ؛
کیونکہ اس میں فتنہ کا اندیشہ ہے، اسی اندیشہ کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف مردوں پر جماعت کو واجب قرار دیا اوردوسری طرف عورتوں کے لئے مستحب بھی نہیں رکھا ؛ بلکہ فرمایا کہ ان کا گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: و صلاتک في دارک خیر لک من صلاتک في مسجد قومک ألخ (مسند احمد، حدیث نمبر: ۲۶۵۵۰ ) اس لئے خواتین کے لئے تراویح کی جماعتوں کا اہتمام ایسا عمل نہیں ہے کہ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔
فتنہ کا اندیشہ دو وجوہ سے پیدا ہوتا ہے، ایک تو دور دور سے خواتین کا آنا، دوسرے نماز پڑھانے والی حافظہ کی آواز ؛ اس لئے اگر گھر کی خواتین یا پڑوس کی خواتین ایسے محفوظ گھر میں جمع ہوجائیں،جہاں پردہ کا پورا اہتمام ہو اور دور سے آنا نہ پڑے، نیز امامت کرنے والی حافظہ خاتون قرآن ایسی معتدل آواز میں پڑھے کہ آواز نماز میں شریک ہونے والی خواتین تک محدود رہے، غیر محرموں تک نہ پہنچے، تو اس کی گنجائش ہے ؛
البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی روایت کے مطابق خواتین امامت کرتے ہوئے صف کے بیچ میں ہی کھڑی ہوں گی، نہ کہ صف کے آگے ؛ چنانچہ روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہارمضان کے مہینہ میں خواتین کی امامت کرتی تھیں اور بیچ میں کھڑی ہوتی تھیں: کانت تؤم النساء فی شھر رمضان فتقوم وسطا (کتاب الآثار، حدیث نمبر: ۲۱۷) یہی رائے میرے استاذ حضرت مولانا مفتی نظام الدین اعظمی ؒ سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند کی بھی ہے، چنانچہ اپنے ایک تفصیلی فتوی کے اخیر میں فرماتے ہیں :
( ب) اگر اتنی بڑی جماعت کی امامت ہو، جس میں آواز معتاد آواز سے زائد ہوتو تمام قیود و شرائط کے باوجود مکروہ تحریمی و ناجائز ہوگا۔
(ج) اگر ماہِ رمضان میں حافظہ قرآن عورتوں کی چھوٹی جماعت جس میں آواز معتاد کے اندر اندر رہے اور تمام قیود وشرائط کے اندر رہے اور عورت صف سے صرف چار انگل آگے رہے تو ’’الأمور بمقاصدھا ‘‘ کے تحت یہ فعل جائز رہے گا۔
(د) اگر ماہِ رمضان المبارک میں صرف دو دو، تین تین عورتوں کی جماعت جو محض بہ نیت حفظِ قرآن پاک اور بطور دور ہو، اور قیود و شرائط کے موافق ہو اور مکان محفوظ کے اندر ہو، جس میں آواز اپنی معتاد آواز سے زائد نہ رہے تو بلا شبہ جائز رہے گی؛ بلکہ ’’الأمور بمقاصدھا ‘‘ کے تحت مستحسن بھی ہوسکتی ہے۔ والعلم عند اللہ ‘‘ (مطبوعہ سہ ماہی حراء، شمارہ نمبر: ۱؍صفحہ نمبر: ۸۳)