[]
غزہ: اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار نے کہا ہے کہ اسرائیل حماس کے ساتھ جنگ کی وجہ سے جان بوجھ غزہ کے لوگوں کو بھوک سے مارنے پر تْلا ہے، نسل کشی اور جنگی جرائم پر اس کا احتساب ہونا چاہیے۔
عرب نیوز کے مطابق اقوام متحدہ کے پروگرام ’رائٹ ٹو فوڈ‘ کے نمائندہ مائیکل فخری نے منگل کو برطانوی اخبار گارڈین کو بتایا کہ اسرائیل جنگ شروع ہونے سے لے کر اب تک جان بوجھ کر غزہ کو بھیجی جانے خوراک کی اشیا کو تباہ کر رہا ہے۔
جنگ زدہ علاقے میں تقریباً 22 لاکھ عام شہری شدید غذائی قلت اور بھوک سے دوچار ہیں۔مائیکل فخری کا کہنا تھا کہ ’جان بوجھ کر عام شہریوں کو خوراک سے محروم رکھنا جنگی جرم ہے، جیسا کہ روم کی بین الاقوامی عدالت انصاف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ لوگوں کی بقا کے لیے ضروری اشیا کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنا یا ان سے محروم کرنا اسی ذیل میں آتا ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے کئی بار اسرائیل پر الزام لگا چکے ہیں کہ وہ بھوک کو بھی جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر ریا ہے جو کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، اور 2018 میں اس کو جنگی جرم بھی قرار دیا گیا۔مائیکل فخری کا کہنا تھا کہ ’اس بات کا کوئی وجہ نہیں کہ جان بوجھ کر انسانی امداد کا راستہ بند، ماہی گیروں کی کشتیوں کو روکا اور باغات کو ختم کیا جائے سوائے اس کے کہ اس کا مقصد لوگوں کو خوراک سے محروم رکھنا ہی ہے۔
ان کے مطابق ’اسرائیل نے لوگوں کو فلسطینی ہونے کے بنا پر مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ غزہ کی صورت حال ’نسل کشی‘ کی ہی ایک صورت ہے، جس میں اسرائیل پوری طرح شریک ہے، جس پر اس کو جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔
مائیکل فخری کے بقول ’اسرائیل کی جانب سے آنے جانے والی اشیا کی چیکنگ سے صورت حال پہلے سے ہی خراب تھی جبکہ جنگ شروع ہونے کے بعد وہ آسانی سے سب کو بھوکا رہنے میں کامیاب ہو گیا کیونکہ بہت سے لوگ پہلے ہی اس دہانے پر پہنچے ہوئے تھے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ عام شہری آبادی کو اس طور پر بھوکا رکھا جائے، اسرائیل صرف عام شہریوں کو ہی نشانہ نہیں بنا رہا بلکہ فلسطینیوں کے بچوں کو نقصان پہنچا کر مستقبل کو تباہ کر رہا ہے۔
مائیکل فخری نے ان ممالک کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جنہوں نے فلسطینیوں کی مدد کرنے والے ادارے کو فنڈنگ روکی۔ اس کے کارکنوں پر اسرائیل کی جانب سے حماس کے ساتھ رابطوں کا الزام لگایا گیا تھا۔انروا نام کا ادارہ مشرق وسطٰی میں تقریباً 60 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو خوراک، صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتیں فراہم کرتا ہے۔مائیکل فخری نے کہا کہ ’صرف چند لوگوں کے خلاف غیرمصدقہ دعوؤں کی بنا پر فنڈنگ روک دیا جانا تمام فلسطینیوں کو سزا دینے کے مترادف ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک ادارے کے سینئر امدادی افسر کی جانب سے خبردار کیا گیا ہے کہ جنگ زدہ غزہ کی ایک چوتھائی آبادی قحط کے دہانے پرپہنچ گئی ہے۔غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اقوام متحدہ کے ایک ادارے کے سینئر امدادی افسر راجیش راج سنگھم کی جانب سے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کو آنے والے دنوں میں پٹی کے ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے۔
سیکورٹی کونسل کو آگاہ کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ شمالی غزہ میں دو سال سے کم عمر کے ہر چھ بچوں میں سے ایک شدید کمزوری کا شکار ہے۔ افسر نے کہا کہ فلسطینی علاقے کے تمام 22 لاکھ افراد بقاء کے لیے انتہائی ناکافی خوراک کی امداد پر انحصار کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں تقریباً 575000 افراد بھوک اور قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔
انہوں نے خبردار بھی کیا ہے کہ اگر مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو وسیع پیمانے پر قحط سالی کا منہ دیکھنا پڑ سکتا ہے۔اقوام متحدہ کے نیوز پورٹل پر شائع ایک رپورٹ کے مطابق ہنگامی امدادی خوراک مہیا کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے نے بتایا ہے کہ غزہ میں بنیادی ضرورت کی خوراک اور طبی مدد میسر نہ آنے کے باعث حاملہ اور حالیہ ایام میں بچوں کو جنم دینے والی ماؤں کی حالت خاص طور پر خراب ہے۔
رپورٹ کے مطابق اتوار کو ’ڈبلیو ایف پی‘ کا پہلا امدادی قافلہ متاثرہ علاقے میں پہنچا تو بھوک کے ستائے افراد نے انہیں گھیر لیا، اس موقع پر ہونے والی فائرنگ کے باعث بہت کم مقدار میں امداد تقسیم ہوسکی۔ادارے کے مطابق شمالی علاقوں میں حالات مزید خراب ہورہے ہیں، جہاں متاثرہ افراد کے بھوک سے مرنے کا خطرہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔