[]
سوال:- آج کل کھانے کی دعوتیں بڑی ہی مسرفانہ ہوتی ہیں ، بہت سی دفعہ انسان اپنی خواہش یا میزبان کے اصرار پر بہت زیادہ کھالیتا ہے ، یہاں تک کہ بعض اوقات پیٹ بھی خراب ہوجاتا ہے ،
اس طرح کھانا صحت کے اعتبار سے تو نقصان دہ ہے ہی ، کیا شرعی اعتبار سے بھی اس میں کوئی قباحت ہے ؟ (نازش ہما، سعیدآباد)
جواب:-افضل طریقہ تو یہ ہے کہ انسان خواہش باقی رہتے ہوئے کھانا چھوڑ دے ، جیساکہ حدیث میں وارد ہے ، کہ پیٹ کا ایک تہائی کھانے کے لئے اور ایک تہائی پانی کے لئے اور ایک تہائی سانس کے لئے ہونا چاہئے :
’’۔۔ فثلث للطعام وثلث للشراب وثلث للنفس ‘‘ (سنن ابن ماجۃ ، کتاب الأطعمۃ ، باب الاقتصاد في الأکل وکراہۃ الشبع ، حدیث نمبر : ۳۳۴۹)
یعنی آسودگی سے بھی کم کھایاجائے ، البتہ اتنا کھانا کہ طبیعت آسودہ ہوجائے ، جائز ہے ، اس میں کراہت نہیں ہے ، اس سے زیادہ کھانا اور بہ تکلف خواہش ختم ہوجانے کے باوجود کھاتے رہنا درست نہیں ؛
کیوںکہ یہ فضول خرچی بھی ہے ، اور صحت کے لئے نقصاندہ بھی اورصحت کی حفاظت بھی انسان پر واجب ہے ، علامہ علاء الدین حصکفیؒ نے تو اسے حرام کہاہے ، اور فتاوی قاضیخان میں مکروہ قرار دیا گیا ہے :
’’ ومباح إلی الشبع لتزید قوتہ ، وحرام عبر في الخانیۃ بیکرہ ، وہو مافوقہ أي الشبع ، وہو أکل طعام غلب علی ظنہ أنہ أفسد معدتہ ‘‘ (الدر المختار مع رد المحتار : ۹/۴۸۹)
اس لئے اس طرح کھانے سے بچنا چاہئے اور محض کھانے پینے کو مقصد زندگی نہ بنا لینا چاہئے ؛ کیوںکہ کھانا زندگی کے لئے ہے نہ کہ زندگی کھانے کے لئے ۔