جنازہ کے احکام

[]

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی مجددی قادری
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)

شریعت مطہرہ نے جہاں زندہ حضرات کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا وہیں پر انتقال شدہ حضرات کے حقوق ادا کرنے کا بھی حکم دیا، یعنی ان کیلئے تجہیز وتکفین کا اہتمام، نمازِ جنازہ کی ادائیگی، دعاء واستغفار، ایصالِ ثواب کا اہتمام خواہ میت صالح ہو یا غیر صالح۔ نیک وصالح بندوں کی کیفیات الگ ہوتیں ہے اور گناہ گار وبدبخت کی کیفیات الگ۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم: اذ وضعت الجنازۃ فا حتملھا الرجال علی اعناقھم فان کانت صالحتہ۔۔۔الخ (بخاری) حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیںکہ جب جنازہ تیار کرکے رکھ دیا جاتاہے اور لوگ اس کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں،اگر وہ نیک ہوتاہے تو (قبر میں اس کے لیے راحت وآرام کا جو سامان مہیا کیا گیا ہے اس کے پیش نظر ہوجاتاہے) تومردہ چاہتا ہے کہ جلد سے جلدوہاں پہونچ جائے۔اس لیے مردہ جنازہ اٹھانے والوں سے کہتا ہے،دوستو !جلدی جلدی مجھے لے چلو،اگر مردہ نیک نہیں ہوتاہے،اور برائی کرتے ہوئے اس کی عمر گزری ہے تو قبر کی تکلیفیں اور مصیبتیں اس کے سامنے پیش کی جاتی ہیں جنازہ اٹھانے والوں سے مردہ کہتا ہے،لوگو !مجھے کہاں لے جارہے ہو اس کی آواز کو انسان کے سوا (ہر مخلوق) سنتی ہے۔

نماز جنازہ ادا کرنے وتدفین میں شریک ہونے کا ثواب:

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم من اتبع جنازۃ مسلم ایمانا و احتساباوکان معہ حتی یصلی علیھا (بخاری ومسلم)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشادفرماتے ہیں کہ جو مسلمان کسی مسلمان کے جنازہ کے ساتھ ساتھ چلا اور اس کے سواء دوسری کوئی غرض نہیں ہے بلکہ صرف ثواب حاصل کرنا چاہتا ہے پھر اس پر نمازجنازہ بھی پڑھی اور اس کے دفن کرنے میں بھی شریک رہا اس کو دو قیراط (سونا صدقہ کرنے کے برابر) ثواب ملتا ہے اورہر قیراط کے ثواب کی مقدار اُحد پہاڑ کے برا برا ہوتی ہے اور اگر کوئی صرف نمازجنازہ پڑھ کر واپس ہوگیا اور دفن میں شریک نہ رہا تو یہ بھی کچھ کم نہیں صرف نماز جنازہ پڑھ کر واپس ہونے والے کو ایک قیراط ثواب ملتا ہے جو اُحد کے پہاڑ کے برابرا ہوتاہے اس کی روایت بخاری اور مسلم نے متفقہ طور پر کی ہے۔

قبرستان میں جنازے کو کندھے سے اتارنے کے بعد بیٹھنے کا حکم: یہ بات واضح ہے کہ شرکائِ جنازہ میں ہر قسم کے لوگ جوان، ضعیف، بچے ہوتے ہیں، اگر ان میں سے کوئی قبرستان میں راحت کی خاطر بیٹھنا چاہتے ہیں تو قبر کے علاوہ جہاں خالی جگہ ہووہاں بیٹھنے کی اجازت ہے، : قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم: اذ اتبعتم جنازۃ فلا تجلسوا حتی توضع۔۔الخ (ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی)حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی ٰ عنہ کے صاحبزادے اپنے والد ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں ابو سعید خدری فرماتے ہیںکہ رسول اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جب تم کسی جنازہ کے ساتھ چلو تو جب تک جنازہ کندھوں سے نہ اتاریں مت بیٹھا کرو۔

ونیز امام ترمذی ابو دائود اور ابن ماجہ نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی ٰ عنہ سے اسی طرح روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پہلے عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپ جب کسی جنازہ کے ساتھ چلتے تو جب تک کہ جنازہ کندھوں سے اتار کر قبر میں نہ رکھ دیا جاتا تو آپ اس وقت تک زمین پر نہیں بیٹھا کرتے تھے،ایک مرتبہ یہودیوں کا ایک عالم حضورؐ کے اس عمل کو دیکھ کر کہنے لگا : اے محمد صلی اللہ تعالی ٰعلیہ وآلہ وسلم جیسے آپ جنازہ کو قبر میں رکھنے تک نہیں بیٹھا کرتے ہیں ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یہودی عالم سے یہ بات سننے کے بعد بیٹھ جاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہودی کی مخالفت کرکے بیٹھنے کے لیے جنازہ قبر میں اتارنے کا انتظار نہ کرو، بلکہ جنازہ کندھوں سے اتار کر زمین پر رکھنے کے بعد ہی بیٹھ جایا کرو۔

نماز جنازہ میں چار تکبیرات لازم ہیں: ان النبی ﷺ نعی للناس النجاشی الیوم الذی مات فیہ وخرج بھم الی المصلیٰ فصف بھم وکبر اربع تکبیرات (بخاری مسلم)حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے شاہِ نجاشی کی موت کی خبر صحابہ کرام کو دی اور صحابہ کرام سے فرمایا کہ شاہ نجاشی کی نماز جنازہ پڑھنے کیلئے عید گاہ چلو، صحابہ کو لے کر عید گاہ تشریف لے گئے، جب حضور ﷺ سب صحابہ کو لے کر عید گاہ میں نجاشی کی نماز جنازہ ادا فرمارہے تھے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلے صفیں درست فرمائیں اور چار تکبیرات کے ساتھ نجاشی کی نمازِ جنازہ ادا فرمائی۔ یہاں ایک قابل ِغور طلب بات یہ ہے کہ مسجد نبوی ؐ کی فضیلت ہونے کے باوجود عید گاہ میں نمازِ جنازہ کا اہتمام فرمایا اس سے واضح ہے کہ اگر مسجد کے علاوہ جگہ ہو تو خارج مسجد نماز ادا کرنا ضروری ہے، اگر نماز جنازہ مسجد میں ادا کرناجائز ہوتاتو مسجد ہی میں حضور ﷺ نجّاشی کی نماز جنازہ ادا فرماتے، اس سے معلوم ہوا کہ مسجد میں نمازِ جنازہ کا ادا کرنا مکروہ تحریمی ہے اور یہی مذہب حنفی ہے۔

اسی حدیث کی بنیاد پر بعض ائمہ کے پاس غائبانہ نماز پڑھنا جائز ہے، لیکن امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس غائبانہ نمازِ جنازہ درست نہیں،علماء احناف اس حدیث شریف کی تشریح فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا فرما رہے تھے، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ حضور کو کشف ہو گیا تھا اور نجاشی کا جنازہ حضور ﷺ کے سامنے لایا گیا، اور حضورؐ جنازہ کو دیکھ کر نماز پڑھارہے تھے۔ ا س پر دلیل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی وہ روایت ہے جس کو حافظ ابن حجر عسقلانی نے اسباب النزول سے نقل کیاہے، حضرت ابن عباس ؓفرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے نجاشی کا جنازہ بطور کشف ظاہر ہو گیا تھا اور حضور ﷺ جنازہ کو آنکھوں سے دیکھ کر نماز جنازہ ادا فرمائی ہے، حضور ؐ نے غائبانہ نماز جنازہ ادا نہیں فرمائی۔

اسی طرح ابن حبان نے اپنی صحیحہ میں ذکر کرتے ہیں، چنانچہ: روی ابن حبان فی صحیحہ عن عمران بن الحصین ان النبی ﷺ قال: ان اخا کم النجاشی توفی فقوموا صلوا علیہ۔۔ الخ (ابن حبان فی صحیحہ) ابن حبان نے اپنی صحیح میں عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: صاحبو! (مجھے کشف سے ظاہر ہوا ہے کہ) تمہارے بھائی نجاشی کی وفات ہوگئی ہے، چلو ان کی نماز جنازہ ادا کریں، یہ ارشاد فرماکر حضور اکرم ﷺ بھی اٹھے اور صحابہ کی صفیں درست فرما کر حضور نے چار تکبیرات کے ساتھ نجاشی کی نماز جنازہ ادا فرمائی، صحابہ فرماتے ہیں ہم یقین سے کہتے ہیں کہ ہم کو ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ نجاشی کا جنازہ حضورؐ کے سامنے رکھا ہوا ہے، اور حضور جنازہ دیکھ کر نماز ادا فرمارہے ہیں۔

اسی طرح طبرانی نے ایک حدیث نقل کی ہے جس میںمدینہ شریف کے جنازہ کو حضور نبی کریم ﷺ کے سامنے مقام تبوک میں پیش کیا گیا: روی الطبرانی فی معجمہ الاوسط عن ابی امامۃ قال کنا مع رسول اللہ ﷺ بتبوک فنزل جبریل ؑ۔۔ الخ (طبرانی) طبرانی نے اپنی اوسط میں ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے، ابو امامہ فرماتے ہیں ہم غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ( ایک دن) جبرئیل علیہ السلام نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا کہ یا رسول اللہ ! مدینہ منورہ میں معاویہ بن معاویہ مزنی کا انتقال ہو گیا ہے کیا آپ پسند فرماتے ہیں کہ آپ کیلئے زمین سمیٹ دی جائے (اور معاویہ بن معاویہ مزنی کا جنازہ آپ کے سامنے ہو جائے) اور آپ ان کی نماز جنازہ پڑھائیں،

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا بہت اچھا، تو جبرئیل ؑ نے زمین پر اپنے پر مارے (اور زمین سمٹ گئی معاویہ بن معاویہ مزنی کا ) جنازہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے آگیا تو رسول اللہ ﷺ نے معاویہ مزنی کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کے پیچھے (صحابہ کرام کے علاوہ) فرشتوں کی دو صفیں بھی نماز جنازہ میں شریک تھیں، اور ہر صف میں ستر ستر ہزار فرشتے تھے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے جبرئیل ؑ سے دریافت فرمایا کہ معاویہ مزنی کو اتنا بڑا مرتبہ کس وجہ سے ملا، تو جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ معاویہ مزنی کو یہ مرتبہ اس وجہ سے ملا ہے کہ وہ سورہ ’’ قل ھو اللہ احد‘‘ سے (اس قدر) محبت رکھتے تھے کہ اس سورت کو آتے جاتے‘ اٹھتے بیٹھتے‘ ہر حالت میں پڑھا کر تے تھے۔ابن حبان، ابو عوانہ اور طبرانی کی ان تینوں روایتوں سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ جب کبھی دور دراز مقام پر وفات پانے والے صحابہ کی نماز جنازہ ادا فرماتے ہیں تو جنازہ حضور ﷺ کے سامنے ہو جاتا تھا اور حضور ﷺ جنازہ کو دیکھ کر نماز جنازہ ادا فرماتے تھے اور ایسے صحابہ جو دور دراز مقام پر وفات پاتے اور ان کا جنازہ حضور ﷺ کے سامنے نہ آتا تو آپ ان کی نماز جنازہ غائبانہ نہیں ادا فرماتے تھے۔ نمازِ جنازہ اسی کو کہتے ہیں میت سامنے موجود ہو۔

میت کیلئے دعاء مغفرت کا اہتمام:

وعن ابی ھریرۃ قال: قال رسول اللہ ﷺ : اذا صلیتم علی المیت فاخلصوا لہ الدعآء (ابو داود، ابن ماجہ)وعنہ قال: کان رسول اللہ ﷺ اذا صلی علی الحنازۃ قال: اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاہِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا وَ ذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا اَللّٰہُمَّ مَنْ أَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الإِیْمَانِ اَللّٰہُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَہٗ وَلَا تَفْتِنَا بَعْدَہٗ (احمد، ابوداود، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب تم نمازجنازہ پڑھو تو مردہ کیلئے بہت خلوص سے دعاء مغفرت کرو۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نماز جنازہ پڑھاتے تو (تیسری تکبیر کے بعد) یہ دعاء کیا کرتے تھے: الٰہی! ہمارے سب زندوں اور مردوں کو آپ بخش دیجئے، اور جو حاضر ہیں ان کی بھی اور جو غائب ہیں ان کی بھی آپ مغفرت فرما دیجئے، ایسے ہی ہمارے چھوٹے اور بڑے یعنی جو ان اور بوڑھے سب کی مغفرت فرمادیجئے، ہاں جو بالغ مرد ہیں یا عورتیں ہیں (ان کو بھی اپنی رحمت سے مایوس نہ کیجئے) سب کی آپ مغفرت فر مادیجئے، الٰہی! ہم جب تک زندہ رہیں ہم کو اپنے احکام کا فرماں بردار رکھئے اور جب ہم مر رہے ہوں۔ الٰہی ! (اس مردہ کی وجہ سے ہم پر جو مصیبت آئی ہے) ہم (بے صبری کر کے) ثواب سے محروم نہ رہیں، ہم کو صبر کی توفیق دیجئے تاکہ ہم صبر کر کے اس مصیبت کا ثواب پائیں اس مرنے والے کے بعد فتنہ میں نہ پڑجائیں۔

مسلمانوں کا نمازِ جنازہ ادا کرنے اور میت کیلئے دعاء کرنے سے میت کی بخشش ہوتی ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے: عن عمر قال: قال رسول اللہ ﷺ ایما مسلم شھد لہ اربعۃ بخیرادخلہ اللہ الجنۃ قلنا وثلاثۃ قال وثلاثۃ قلنا واثنان قال واثنان ثم لم نسالہ عن الواحد (بخاری) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ جس مسلمان میت کیلئے اس کے نیک ہونے کی چار مسلمان گواہی دیں تو (یہ علامت ہے کہ وہ مسلمان جنت کا مستحق ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے) اس کو جنت دے گا (اس لیے کہ جنت نیکیوں کا بدلہ ہے)،

حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کی حضورؐ ! اگر تین مسلمان میت کے نیک ہونے کی گواہی دیں تو کیا حکم ہے؟ رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے کہ وہ بھی جنت کا مستحق ہوگا، اور جنت میں داخل کیا جائے گا، پھر ہم عرض کیے یا رسول اللہ ؐ! کہ اگر دو مسلمان ایسی گواہی دیں تو؟ حضور اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا تب بھی یہی حکم ہے (کہ وہ جنت میں داخل کیا جائے گا) پھر ہم نے حضور ؐ سے یہ دریافت ہی نہیں کیا کہ اگر مسلمان کسی مسلمان میت کے نیک ہونے پر گواہی دے تو س کا کیا حکم ہے اس لیے کہ گواہی کا نصاب کم سے کم دو مسلمان ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں باحیات اور انتقال شدہ حضرت کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین ؐ۔
٭٭٭



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *