[]
رجب کے مہینہ کو کئی پہلوؤں سے امتیازی حیثیت حاصل ہے ، جب رجب کا مہینہ شروع ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دُعاء فرماتے: اللّٰھم بارک لنا في رجب وشعبان وبلغنا رمضان (المعجم الاوسط:۴؍۱۸۹) اسلام سے پہلے رجب میں قربانی دی جاتی تھی ، جس کو ’’عتیرہ‘‘ کہا جاتا تھا ، ابتداء ِاسلام میں بھی یہ قربانی باقی تھی ، بعد کو یہ حکم منسوخ ہو گیا ، (توبہ: ۳۶) سال کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرام ہیں ، جس کے اندر جنگ میں پہل کرنے کی اجازت نہیں ، قرآن میں بھی ان مہینوں میں قتال کی ممانعت کی گئی ہے ، (توبہ:۳۶) ان حرام مہینوں میں ایک رجب کا مہینہ بھی ہے ، اس ماہ سے سیرت ِنبوی کا ایک نہایت ہی عظیم الشان واقعہ متعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانی سفر کرایا اور آپؐ نے عالم بالا کا مشاہدہ کیا ، جس کو واقعۂ معراج کہتے ہیں ، خود قرآن مجید میں اس سفر کا ذکر موجود ہے۔ (اسراء:۱)
سیرت کا ایک اور اہم واقعہ بھی رجب ہی میں پیش آیا ، جو معراج ہی سے متعلق ہے اوروہ ہے : پانچ وقتوں کی نمازوں کا فرض ہونا، یوں تو نمازیں پہلی اُمتوں پر بھی فرض تھیں ، خود قرآن مجید میں اس کا اشارہ موجود ہے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبۃ اللہ کی تعمیر کرتے ہوئے اس کی غرض یہی بتائی کہ یہاں نمازیں قائم کی جائیں گی ، (ابراہیم: ۳۵) اور اپنے ساتھ ساتھ اپنی ذریت کے لئے بھی دُعا فرمائی کہ بار الٰہا ! انہیں بھی نماز کی توفیق عطا فرمائیے: رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ (ابراہیم ۴۰)اس دُعا کی قبولیت کا ایک اثر یہ تھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے لوگوں کو نماز پڑھنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے ، (مریم: ۵۵) قرآن میں جو واقعات ذکر کئے گئے ہیں ، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام کی اُمت میں بھی نماز تھی ، اوران کی قوم اس سلسلہ میں ان کو طعنہ بھی دیا کرتی تھی : اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُ نَاۤ (ہود:۸۷) حضرت لوط ، حضرت اسحاق ، حضرت یعقوب علیہم السلام اور ان کی نسلوں کو قرآن مجید کے بیان کے مطابق نماز کا حکم دیا گیا تھا ، (انبیاء:۷۳) حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون علیہما السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو بھی نماز کا حکم فرمایا گیا ، (یونس:۸۷) قرآن مجیدنے حضرت زکریا علیہ السلام کے ایک واقعہ کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس وقت محراب میں نماز ادا فرما رہے تھے : وَهُوَ قَآئمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ (آل عمران:۳۹) اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جب زمانہ شیر خواری میں معجزاتی طور پر گفتگو کرائی گئی تو اس میں ایک فقرہ یہ بھی تھا کہ اللہ نے مجھے نمازکا حکم فرمایا ہے: وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ (مریم:۳۱) غرض کہ جس قوم کے پاس بھی وحی آسمانی پہنچی ، ان کو ایمان کے ساتھ نماز کا بھی حکم دیا گیا ۔
البتہ ضروری نہیں ہے کہ پانچوں نمازوں کا حکم دیا گیا ہو ، یا نماز کی وہی ہیئتیں رکھی گئی ہوں ، جو اس اُمت کے لئے رکھی گئی ہیں ؛ بلکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز عشاء اس اُمت کی خصوصیات میں ہے ، پچھلی اُمتوں پر یہ نماز فرض نہیں تھی ، (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۴۲۱) اُمت محمدیہ پر بھی ایسا نہیں ہے کہ واقعۂ معراج سے پہلے نماز فرض نہ رہی ہو ؛ بلکہ قرآن مجید کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد سب سے پہلے جو فریضہ مسلمانوں پر عاید کیا گیا ، وہ دعوتِ دین اور نماز ہے ؛ کیوں کہ سورۂ علق کی ابتدائی آیت کے نازل ہونے کے بعد سب سے پہلے سورۂ مدثر کی ابتدائی آیت نازل ہوئی ، (تفسیر خازن: ۴؍۶۲، بخاری، حدیث نمبر: ۴۹۲۶) اور اس میں آپ کو دعوت دین کے ساتھ ساتھ نماز کی بھی تلقین کی گی: یاَیُّهَاالْمُدَّثِّرُ، قُمْ فَاَنْذِرْ، وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (مدثر:۱-۳) پہلی آیت میں آپ سے خطاب ہے ، دوسری آیت میں انذار یعنی دعوت کا حکم ہے ، اور تیسری آیت میں اللہ کی بڑائی بیان کرنے یعنی نماز کا حکم ہے ؛ البتہ ابھی دن ورات میں دو وقت کی نمازیں فرض کی گئی تھیں ، دو رکعت طلوع آفتاب سے پہلے اور دو رکعت غروب آفتاب سے پہلے: رکعتین بالغداۃ ورکعتین بالعش (تفسیر ابن عطیہ: ۱؍۱۰۴) محدثین اور سیرت نگاروں کا اس پر اجماع واتفاق ہے کہ پھر واقعہ معراج ہی کے موقع سے پانچ وقت کی نماز فرض کی گئی ۔ (تمہید لابن عبدالبر: ۸؍۳۵)
احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں پانچوں نمازیں دو دو رکعت ہی فرض ہوئی تھیں ، بعد کو چار رکعت کر دی گئیں ؛ البتہ سفر میں دو رکعت باقی رکھی گئی، یہ بات اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے مروی ہے ، (بخاری، حدیث نمبر: ۳۹۳۵) شب ِمعراج میں پانچ وقت کی نمازیں تو فرض کی گئی ؛ لیکن اس وقت نمازوں کے اوقات متعین نہیںہوئے تھے ، روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعۂ معراج کی اگلی صبح حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور پانچوں وقت نماز پڑھ کر آپ کو بتایا ، اور آپؐ نے اسی کے مطابق نماز ادا فرمائی ، (بخاری، حدیث نمبر: ۵۲۲) اس طرح یہ پانچ نمازیں فرض ہوئیں، اور نمازوں کے اوقات متعین ہوئے ، نماز کے بعض افعال میں بھی ابتداء میں سہولت رکھی گئی تھی ، جیسے گفتگو کی ممانعت نہیں تھی ، پھر اس سے منع فرما دیا گیا ، مسبوق یعنی جس کی کچھ رکعتیں چھوٹ جاتی ہیں ، وہ اپنی چھوٹی ہوئی رکعتوں کو اپنے لحاظ سے ادا کرتا تھا ، امام کی اتباع نہیں کرتا تھا ، پھر امام کی اتباع کو لازم کر دیا گیا ، غرض کہ یہ دین کا اتنا اہم فریضہ ہے کہ اس کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم بالا پر بلایا ، اور وہاں اُمتِ محمدیہ کے لئے یہ مبارک ومسعود تحفہ آپؐ کو عنایت فرمایا گیا ۔
نماز کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں تقریباً سات سو مواقع پر مختلف حیثیتوں سے نماز کا ذکر آیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اسلام قبول کرنے والوں سے بیعت لیتے تو نماز کا عہد ضرور لیتے، (بخاری، حدیث نمبر: ۵۲۴) وفد عبد قیس بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا تو آپ نے ان کو چار باتوں کے کرنے کا حکم دیا ، اور چار باتوں سے رکنے کا حکم دیا ، جن چار باتوں کے کرنے کا حکم دیا، ان میں توحید کی شہادت کے بعد پہلا حکم نماز کا تھا، (بخاری، حدیث نمبر: ۷۵۵۶) آپؐ نے اسلام کے اہم اجزاء سمجھانے کے لئے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے، یہاں بھی آپؐ نے توحید کی شہادت کے بعد سب سے پہلے نماز قائم کرنے کا حکم دیا ، (بخاری، حدیث نمبر: ۸۱) آپ نے نماز کی اہمیت واضح کرنے کے لئے اس کو ایمان کا درجہ عطا فرمایا ، اور ارشاد ہوا : جس نے نماز چھوڑ دی ، گویا اس نے کفر کیا: من ترکھا فقد کفر(ترمذی، حدیث نمبر: ۲۶۲۱) نماز کا عمل آپؐ کو کس قدر محبوب ومقبول تھا ، اس کا اندازہ آپ کے اس قول سے کیجئے کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے: جعل قرۃ عیني في الصلاۃ (نسائی، حدیث نمبر: ۳۹۳۹) نماز سے آپ کو راحت ملتی اور سکون قلب حاصل ہوتا، آپ حضرت بلال ؓسے فرماتے: نماز قائم کر کے ہماری راحت کا سامان کرو: یا بلال! أقم الصلاۃ أرحنا بھا (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۴۹۸۵) شریعت میں نابالغ پر عبادتیں فرض نہیں کی گئی ہیں ؛ لیکن آپ نے خاص طور پر نماز کے بارے میں فرمایا کہ جب بچہ سات سال کی عمر کا ہو جائے تو اس کو نماز کا حکم دو اورجب د س سال کی عمر ہو جائے اور نماز نہ پڑھے تو اس کو تنبیہ کرو، (ترمذی، حدیث نمبر: ۴۰۷) منشاء نبوی یہ تھا کہ بچوں پر اگرچہ نماز فرض نہیں ہے ؛ لیکن ان کو شروع سے نماز کی عادت ڈالی جائے ۔
عبادات میں نماز کو بعض ایسی خصوصیات حاصل ہیں ، جو کسی اور عبادت کو حاصل نہیں ، مثلاً نماز کے علاوہ تمام عبادتیں ایک طبقہ پر ہیں ، دوسرے طبقہ پر نہیں ، زکوٰۃ مالداروں پر فرض ہے غریبوں پر نہیں ، روزہ صحت مندوں پر ہے بیماروں پر نہیں ، سفر حج کی فرضیت کے لئے صحت مند اور صاحب استطاعت ہونا ضروری ہے ، جو صحت واستطاعت سے محروم ہوں، ان پر فرض نہیں ہے ، قربانی اہل ثروت پر ہے غریبوں پر نہیں ، اگر کسی علاقہ میں جہاد فرض ہو تو اس کا حکم مردوں اور جوانوں کے لئے ہے عورتوں اور بوڑھوں کے لئے نہیں ؛ لیکن نماز ہر ایسے شخص کے لے ہے جس کے ہوش وحواس برقرار ہوں ، صحت مند ہو یا بیمار ، جوان ہو یا بوڑھا ، طاقت ور ہو یاکمزور ، مالدار ہو یا غریب ، مرد ہو یا عورت اور مسافر ہو یا مقیم ۔
اسی طرح دوسری عبادتیں یا تو مکمل طور پر فرض ہیں یا فرض نہیں ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص اس عبادت کو بہ کمال وتمام انجام نہ دے سکے تو جس حد تک انجام دے سکتا ہو ، اس حد تک انجام دینے کا حکم دیا گیا ہو ، اگر غروب آفتاب تک فاقہ رہنے کی طاقت نہیں ہے تو ایسا نہیں کہ ظہر تک روزہ رکھ لے ، اگر نصاب زکوٰۃ کے نصف کا مالک ہو تو یہ نہیں ہے کہ اس کے بقدر زکوٰۃ فرض ہو، اگر حج کے لئے مکہ مکرمہ تک پہنچنے کی استطاعت نہ ہو تو ایسا نہیں ہے کہ جدہ تک جا کر واپس آجائے ؛ لیکن نماز اگر اس کے تمام احکام و آداب کی رعایت کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا ہو تو جس طرح ادا کر سکتا ہو ، اس طرح ادا کر لے ، قیام فرض ہے ؛ لیکن کھڑا نہ ہو سکتا ہو تو بیٹھ کر ادا کرلے ، بیٹھنے کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹ کر پڑھے ، غسل کی ضرورت ہو تو غسل کرنا اوروضو کی ضرورت ہو تو وضو کرنا ضروری ہے ؛ لیکن اگر پانی کے استعمال پر قادر نہ ہو تو تیمم کر لے ، غرض جس حد تک اس عبادت کو انجام دے سکتا ہو ، انجام دینا ضروری ہے ، نماز کو بالکل چھوڑ دینا جائز نہیں ۔
نماز کی اس اہمیت کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ یہ توحید اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کا اعلیٰ ترین مظہر ہے ، نمازی اللہ کی تکبیر سے اپنی عبادت شروع کرتا ہے ، قبلہ کی طرف ہاتھ اُٹھا کر اشارہ سے شرک اور غیر اللہ کی کبریائی کی نفی کرتا ہے ، پھر ایک غلام کی طرح نہایت ادب کے ساتھ دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتا ہے ، آنکھیں بھی اس طرح جھکی ہوئی ہیں ، جیسے ایک مجرم دربار شاہی میں نظر اُٹھانے کی ہمت نہیں کرتا ، زبان پر اللہ تعالیٰ کی حمد و تعریف کے کلمات ہیں ، کبھی کمر تک جھکتا ہے اور کبھی اپنے مالک کے سامنے اپنی جبین ندامت کو زمین پر رکھ دیتا اور خاک آلود کرتا ہے ، جب جھکتا ہے تو زبان پر اللہ کی پاکی کا ذکر ہے ، اور جب اُٹھتا ہے تو زبان اللہ کی بڑائی کا نعرہ لگاتی ہے ، کبھی التجاء کرتا ہے ، کبھی اپنی غلطیوں کی معافی مانگتا ہے ، اس کے جسم کا کوئی حصہ آزاد نہیں ، وہی کچھ کہتا ہے جو اللہ کے رسول نے کہنے کا حکم دیا ، وہی سب کرتا ہے جس کی آپؐ نے ہدایت فرمائی ، اسی جگہ دیکھنا ہے جہاں نماز کی حالت میں آپؐ کی نظر ہوا کرتی تھی ، غرض انسان کا پورا وجود خدا کے سامنے بچھ جاتا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کسی مسلمان کے نماز چھوڑ دینے کا تصور ہی نہیں تھا ، یہاں تک کہ جو لوگ اندر سے مسلمان نہیں تھے اور بعض فوائد کے لئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے ، وہ بھی پابندی سے نماز پڑھتے تھے کہ کہیں ان کا یہ نفاق ظاہر نہ ہو جائے ؛ لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ مسلمان مسجد تو خوبصورت سے خوبصورت بناتا ہے ، اور اس میں آپس میں مقابلہ بھی ہوتا ہے ؛ لیکن مسجدوں کی آبادی کی فکر نہیں کی جاتی بقول شاعر :
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
جن لوگوں پر نماز فرض ہے ، اگر وہ سب نماز کا اہتمام کریں تو پانچوں وقت ہر مسجد میں جمعہ کا منظر نظر آئے ؛ لیکن صورت حال یہ ہے کہ اکثر مسجدوں میں عام نمازوں میں مسجد کا ایک چوتھائی حصہ بھی پُر نہیں ہو پاتا ، یہی حال گھروں میں خواتین کا ہے ، سمجھا جاتا ہے کہ نماز پڑھنا صرف بوڑھی عورتوں کے ذمہ ہے ، تعلیم حاصل کرنے والی ، ملازمت کرنے والی اور پکوان کرنے والی خواتین پر گویا نماز فرض ہی نہیں ہے ، بعض عورتیں سمجھتی ہیں کہ اگر بچہ کپڑے پر پیشاب کر دے تو نماز نہیں پڑھ سکتے ؛ حالاںکہ یہ بات بہت آسان ہے کہ نماز پڑھنے کے لئے ایک الگ کپڑا رکھیں ، اور جسم کے جس حصہ پر پیشاب لگ گیا ہے ، صرف اس کو دھولیں ، اسی طرح بعض بہنوں کو غلط فہمی ہے کہ بچہ کی پیدائش کے بعد بہر صورت چالیس دن تک نماز معاف ہے ؛ حالاں کہ جس وقت بھی خون بند ہو جائے او ر پاک صاف ہو جائیں ، ضروری ہے کہ غسل کرلیں اور اس کے بعد نماز ادا کریں ، خواہ ولادت کے ایک ہی دن بعد خون تھم جائے ۔
مقام عبرت ہے کہ جو عمل نبی کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہو ، اُمت اس میں اپنی آنکھوں کے لئے ٹھنڈک محسوس نہ کرے ، اس سے بڑھ کر محرومی اور بدبختی کیا ہوگی ؟
٭