[]
نئی دہلی۔ گیان واپی مسجد کی نچلی منزل میں راتوں رات لوہے کی گرل کانٹ کر اور مورتیاں رکھ کر بہت عجلت میں پوجا کا شروع کروادیا جانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ایڈمنسٹریشن مدعی کے ساتھ مل کر مسجد کمیٹی کے آر ڈر کے خلاف اپیل کے حق کو متاثر کرنا چاہتا تھا، ہم اس ملی بھگت کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ حالانکہ عدالت نے انتظامیہ کو اس کام کے لئے ۷ دن کا وقت دیاتھا۔ ہمیں وارانسی ڈسڑکٹ جج کے فیصلہ پر بھی سخت حیرت اور افسوس ہے ۔ ہمارے نزدیک یہ فیصلہ انتہائی غلط اور بے بنیاد دلیل کی بنیاد پر دیا گیا کہ گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں 1993 تک سومناتھ ویاس کا پریوار پوجا کرتا تھااور اس وقت کی ریاستی سرکار کے حکم پر اسے بند کردیا گیا تھا۔
17جنوری اسی کورٹ نے تہہ خانے کو ضلعی انتظامیہ کی تحویل میں دے دیا تھا۔
ہم یہ بات واضح کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس تہہ خانے میں کبھی بھی پوجا نہیں ہوئی تھی، ایک لغو اور بے بنیاد دعوے کو بنیاد بناکر ضلعی جج نے اپنی سروس کے آخری دن انتہائی قابل اعتراض اور بے بنیاد فیصلہ دیا ہے۔ اسی طرح آرکیولوجیکل سروے کی رپورٹ کا بھی ھندو فریق نے پریس میں یکطرفہ طور پر انکشاف کرکے سماج میں انتشار پیدا کیا ہے حالانکہ ابھی عدالت میں نہ تو اس پر کوئی بحث ہوئی ہے اور نہ ہی اس کی تصدیق۔ ابھی اس رپورٹ کی حیثیت محض ایک دعوے کی ہے۔
ضلعی عدالت کے حکم کو انتظامیہ نے جس عجلت میں نافذ کیا اس کا واضح مقصد مسلم فریق کے اس حق کو متاثر کرنا تھا کہ وہ ہائی کورٹ سے فوری کوئی ریلیف نہ حاصل کرسکے۔ اسی طرح ہمارا احساس ہے کہ ضلعی عدالت کو بھی مسلم فریق کو اپیل کا موقع دینا چاہیے تھا جو کہ اس کا قانونی حق ہے۔
مسئلہ صرف گیان واپی مسجد تک محدود نہیں ہے بلکہ جس طرح متھرا کی شاہی عیدگاہ، دہلی کی سنہری و دیگر مساجد اور ملک کے طول و عرض میں متعدد مساجد اور وقف کی جائیدادوں پر مسلسل بے بنیاد دعوے کئے جارہے مزید برآن اپنے فیصلے میں اس قانون کو ملک کے سیکولر ڈھانچے کے لیے ضروری قراردینے اور اس کی پاسداری کی واضح ہدایت دینے کے باجود،عدالت عظمیٰ عبادت گاہوں سے متعلق 1991 کے قانون پر مسلسل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے، اس نے ملک کے مسلمانوں کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
کسی بھی جمہوری نظام میں عدالتیں سماج کے مظلوم اور متاثر افراد کی داد رسی کا آخری سہارا ہوتی ہیں لیکن اگر وہ بھی جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے لگیں تو پھر انصاف کی دہائی کس سے لگائی جائے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل محترم دشانت دوے صاحب کی عدالتوں کے بارے یہ رائے حق بجانب ہے کہ ملک کی عدالتیں فرقہ پرستوں کی دست نگر بنتی جارہی ہیں اور وہ انتظامیہ کی صریح قانون شکنی پر خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔ ایک انتہائی سینئر وکیل کا ملک کے عدالتی نظام پر یہ سنگین تبصرہ ایک تباہ کن مستقبل کی طرف اشارہ کررہاہے۔
عدالتوں کے متواتر کئی فیصلے ملک کی اقلیتوں اور مظلوم طبقات کے اسی احساس کو تقویت پہنچارہے ہیں جس کا اظہار وکیل موصوف نے مذکورہ بالا الفاظ میں کیا ہے۔ یہ مسئلہ صرف عدالتوں کے وقار کو باقی رکھنے کا ہی نہیں ہے بلکہ ملک کے انصاف پسند عوام اور اقلیتی فرقوں کو احساس محرومی اور احساس مظلومیت سے بچانے کا بھی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت ملک کے وقار اور اس کے عدالتی نظام اور انتظامی امور کی غیر جانب داری کو سخت خطرات لاحق ہوگئے ہیں جن کا بروقت نوٹس لینا تمام دستوری عہدہ داروں کا اہم ترین فریضہ ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے نمائندے کی حیثیت سے اس احساس کو صدر جمہوریہ تک جو کہ ملک کا سربراہ اعلی ہے پہنچانے کے لئے ان کے نمائندے کی حیثیت سے ہم نے وقت مانگا ہے تاکہ اس کے تدارک کے لئے وہ اپنی سطح سے کوشش کرسکیں۔اسی طرح ہندوستانی مسلمانوں کے اس احساس کو ہم مناسب طریقے سے چیف جسٹس آف انڈیا تک بھی پہنچانے کی کوشش کریں گے۔
پریس کو مخاطب کرنے والے
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
مولانا سید ارشد مدنی، صدر، جمیعت علمائے ہند
مولانا اصغر امام مہدی، صدر مرکزی جمیعت اہل حدیث
مولانا سید اسد محمود مدنی، صدر جمیعت علما ھند
جناب ملک معتصم خان صاحب، نائب امیر، جماعت اسلامی ھند
جناب اسد الدین اویسی، ایم پی، صدر آل انڈیامجلس اتحادالمسلمین
مولانا مفتی مکرم احمد، شاہی امام، فتح پوری
ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس،ترجمان و ممبرمجلس عاملہ پرسنل لا بورڈ
جناب کمال فاروقی، ممبر مجلس عاملہ، مسلم پرسنل لا بورڈ
–