مقامی مسلمانوں کے سروے کی وجوہات بتائی جائیں، حکومت کو ہائی کورٹ کی نوٹس

[]

گوہاٹی: گوہاٹی ہائی کورٹ نے ریاست کی مقامی مسلم آبادی کا سماجی و معاشی سروے کرنے آسام حکومت کے فیصلہ پر اس سے وضاحت طلب کی ہے۔

جسٹس ایل ایس جامیر نے 22 جنوری کو حکم نامہ جاری کیا اور اندرون چار ہفتے وضاحت پیش کرنے کی ہدایت دی۔ ایک ایڈوکیٹ اور آل انڈیا سیوایجوکیشن کمیٹی کے رکن فضل الزماں مجمدار کی درخواست کی سماعت کے بعد یہ حکم جاری کیا گیا آسام کابینہ نے 8 دسمبر 2023 کو مسلمانوں کی پانچ برادریوں، سید، گوریا، موریا، دیسی اور جولاہا کو مقامی آسامی مسلمان تسلیم کرتے ہوئے ان کے سماجی و معاشی سروے کو منظوری دی تھی۔

ان پانچ برادریوں کی ثقافتی شناخت پر ایک کابینی سب کمیٹی کی رپورٹ پر جو دسمبر 2021 میں پیش کی گئی تھی، انہیں تسلیم کیا گیا۔ سب کمیٹی کی تجاویز میں ایک قانون ساز کونسل کی تخلیق، آسامی مسلمانوں کیلئے مصرحہ تعداد میں نشستوں کی تخصیص اور ان کے لئے ایک علحدہ ڈائرکٹوریٹ یا اتھاریٹی کا قیام شامل ہیں۔

توقع ہے کہ یہ سروے ریاست کی مقامی اقلیتوں کی جامع سماجی و معاشی اور تعلیمی ترقی کے لئے مناسب اقدامات کرنے حکومت کی رہنمائی کرے گا۔ مقامی مسلمانوں کی زیادہ تر آبادی وادیئ برہم پترا میں ہے۔

درخواست گزار نے جو بنگالیوں کی غلبہ والی بارک وادی سے تعلق رکھتے ہیں، کہا کہ حیرت انگیز طور پر جنوبی آسام یا وادیئ بارک کی مقامی مسلمان آبادی کو مقامی مسلمانوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔

درخواست گزار نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ دستور ہند کی دفعہ25 تا30 کے تحت جن مذہبی ذیلی گروپس کا احاطہ کیا گیا ہے حکومت ان کے علاوہ کسی اور مذہبی ذیلی گروپ کے لئے کوئی فلاحی اسکیم نافذ نہیں کرسکتی اور نہ کوئی خصوصی حق اور مراعات انہیں دے سکتی ہے۔

درخواست گزار نے کہا کہ نسلی شناخت کو مذہب کے ساتھ خلط ملط کرنا بھی غیردستوری ہے۔ اسی لئے یہ مفاد عامہ کی درخواست داخل کی گئی ہے اور حکومت آسام کو یہ ہدایت دینے کی التجا کی جاتی ہے کہ وہ زبان اور مذہب کی اساس پر آسام کے عوام میں کوئی تفریق پیدا نہ کرے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *