یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے

[]

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی پی ایچ ڈی

مولانا رومی اگرآج با حیات ہوتے تو وہ یقینا بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام نہاد جیالوں سے کہتے کہ صبر والے کانوں سے سنو ۔۔۔ ہمدرد آنکھوں سے دیکھو ۔۔۔ محبت والی زبان سے بولو ۔۔۔
یہ زرین قول آج اس لئے ضروری ہوگیا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا ہر چھوٹا بڑا لیڈر نہ صرف اقلیتوں کے خلاف بلکہ شنکر اچاریوں جیسی قابل احترام شخصیتوں کے خلاف جو جی میں آیا بکے جارہا ہے نہ انہیں ملک کی تہذیب اس کی عظمت اور اس کی شائستگی کی پرواہ ہے اور نہ ہی گیتا کے اس قول کو یعنی ’’خود جیو اوروں کو بھی جینے دو ‘‘کو بھی پامال کررہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ لیڈروں کو یہ یقین ہوچلا ہے کہ نریندر مودی اپنی تیسری میعاد مئی سے نہیں بلکہ جنوری سے ہی شروع کرنے والے ہیں۔ یعنی وہ یہ دعوی کرنے لگے ہیں کہ رام مندر کے افتتاح کے ساتھ ہی وہ ملک کے تیسری بار وزیراعظم بن جائیں گے۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ 2014 اور 2019 کے مقابلہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو انڈیا بلاک کی شکل میں ایک انتہائی مضبوط اپوزیشن ملا ہے جو بی جے پی کے تمام calculations کو تباہ کرسکتا ہے۔ پچھلے دونوں انتخابات میں حزب اختلاف بکھرا ہوا تھا لیکن اس بار انڈیا بلاک کے تمام حلیف جماعتیں نہ صرف متحد ہیں بلکہ قربانی کے جذبے سے سرشار ہیں تاکہ عنانیت پسند بھارتیہ جنتا پارٹی کو نیست و نابود کیا جاسکے۔ پہلے تو بی جے پی یہ کہہ رہی تھی کہ اپوزیشن کا متحد ہونا ناممکن ہے پھر جب اتحاد قائم ہوگیا تو اس نے یہ کہا کہ سیٹوں کے بٹوارے کے موضوع پر یہ ایک دوسرے سے لڑ پڑیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور خاموشی کے ساتھ ان کے بیج سیٹوں کا بٹوارہ بڑی آسانی سے ہونے لگا۔ بہار، بنگال، اترپردیش ، مہاراشٹرا، دلی، پنجاب، جھاڑکھنڈ، تملناڈو اور دوسرے کئی علاقوں میں نشستوں کی تعداد پر اتفاق رائے پیدا ہوچکا ہے۔ مختلف کمیٹیاں بھی بن چکی ہیں۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے صدر ملکارجن کھرگے کو انڈیا بلاک نے اپنا چیرمین بناکر یہ ثابت کردیا کہ اسے کانگریس کی قیادت منظور ہے۔ انہوں نے جس امید اور یقین کے ساتھ کانگریس کو اتحاد کی صدارت سونپی ہے اس پر پارٹی پوری طرح کھری اتر رہی ہے۔ ملک کے کونے کونے میں بہت جلد انڈیا بلاک کی ریالیاں منعقد ہونگی جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی بدحال حکومت سے بڑے ہی کٹھن سوالات پوچھے جائیں گے۔ منی پور سے لے کر ممبئی تک کی باتوں کا احاطہ ہوگا۔ سیاسی ماہرین رام مندر کی افتتاحی تقریب کے باوجود یہ کہہ رہے ہیں کہ رام کا تقدس ان کی عظمت رام مندر کی تعمیر کی مسرت یقینا اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے لیکن لوگ صحت ، روزگار، صنعتی گراوٹ اور ابتر معیشت کے بارے میں ضرور سوال اٹھائیں گے اور بی جے پی سے اس کی ساڑھے نو سالہ حکومت کا حساب پوچھیں گے۔ کہا جارہا ہے کہ بی جے پی اور انڈیا بلاک کے درمیان جو جنگ ہے وہ چار نکتوں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ پہلا نکتہ اپوزیشن کا اتحاد ہے، دوسرا نکتہ پچھلی بار بی جے پی یا این ڈی اے کو 37 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے جبکہ 62 فیصد اپوزیشن کے حصے میں رہے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ امیت شاہ اور مودی دونوں ہی لوک سبھا کے چناؤ کو لے کر بے حد خائف ہیں یہی وجہ ہے کہ مودی مختلف مندروں پر اپنا ماتھا ٹیک رہے ہیں جبکہ امیت شاہ مختلف ریاستوں کا دورہ کرتے ہوئے اپوزیشن میں پھوٹ ڈالنے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں۔ پارٹی کی بی ٹیم کے طورپر ای ڈی کو بھی تیز تر کاروائی کرنے کے لئے لگا دیا گیا ہے۔ چوتھا نکتہ یہ ہے کہ کیا اس طرح کی کوشش سے بی جے پی کے ووٹوں میں اضافہ ہوگا ؟ یا پھر رام لہر کے نام پر اس کے ووٹ بڑھیں گے؟ ماہرین یہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ بی جے پی اپنے saturation point پر پہنچ گئی ہے۔ ایک اور انتہائی اہم نکتہ یہ ہے کہ بی جے پی خود یہ کہنے لگی ہے کہ 160 پارلیمنٹ کی سیٹیں ایسی ہیں جہاں پر وہ کمزور ہے۔ ماہرین ایک انتہائی اہم موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ آخر رام مندر کے مسئلے پر کتنی بار ووٹ حاصل کئے جائیں گے۔ اٹل بہاری واجپائی کی جو سرکار بنی تھی وہ خالص رام مندر کے لئے ہمدردی کی لہر کے پیدا ہونے سے بنی تھی یعنی وہ سرکار لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا کا نتیجہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے 2014 اور 2019 دونوں ہی چناؤوں میں رام مندر کو موضوع نہیں بنایا تھا۔ ہاں فرقہ پرستی پر اس کا انحصار ضرور تھا۔ پچھلے دونوں ہی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ترقی کو موضوع بنا کر ووٹ لئے تھے۔ ماہرین یہ کہتے ہیں کہ اس بار بھی رام مندر کا موضوع بی جے پی کو اقتدار دلا سکتا ہے تو وہ غلطی پر ہے۔ آج بھی اعلیٰ ذات کے رائے دہندے بی جے پی کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں جو اس کے کور ووٹر ہیں۔ یعنی ماہرین بار بار یہی کہہ رہے ہیں کہ شمال میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو جو ووٹ پہلے ملے تھے اس میں کمی ہی ہوگی بڑھت نہیں ہوگی۔ پہلی بار ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاسی فائدے کے لئے شنکر اچاریوں جیسی مقدس شخصیتوں کی شان میں گستاخی کی جارہی ہے۔ ایک بزرگ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اب ہندوستان دو فرقوں میں بٹ گیا ہے۔ یعنی ایک سیاسی ہندو اور دوسرے دھرم کی صحیح spirit کو ماننے والے ہندو۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ سستے سیاسی فائدوں کے لئے اس طرح کی صورتحال قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ ملک کے صحیح سوچنے والے چاہے وہ ہندو ہوں ، مسلمان ہوں، سکھ ہوں کہ عیسائی سبھی کا یہ خیال ہے کہ اس طرح کی صورتحال بھی ہم کو نقصان نہیں پہنچا سکتی لیکن ہم سب کو ایک جٹ ہوکر ملک کے اتحاد، اتفاق اور بھائی چارے کو مضبوط رکھنا ہوگا۔ ہمارے دلوں پر‘ ہمارے ذہنوں پر جو زخم لگے ہیں وہ سب مٹ جائیں گے اور ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر امن و شانتی کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ 22جنوری کو جہاں مندر کا افتتاح ہوگا تو وہیں 26جنوری کو ہمیں بتلایا جائے گا کہ ہم ایک عظیم جمہوری قوم ہیں۔ جمہوریت کے اس عظیم مندر کا تحفظ بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ملک کی صورتحال کو متوازن رکھنا ہے تو ہمیں سلیقے کے ساتھ بات کرنی ہوگی۔ بقول وسیم بریلوی ؔکے ؎
کونسی بات کہاں کیسے کہی جاتی ہے
یہ سلیقہ ہوتو ہر بات سنی جاتی ہے
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *