[]
پیرزادہ ڈاکٹر سید شاہ تنویر عالم قادری الموسوی
شیخ الحلقہ بارگاہ قادریہ موسویہ
ولی کی تعریف میں بزرگوں نے تحریر فرمایا ہے کہ ولی ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنی بشری قوت و طاقت کی حیثیت سے اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا جاننے والا ہو اور ظاہری و باطنی اعتبار سے عبادت و اطاعت کا پابند ہو اور شریعت محمدی کے خلاف عمل سے بچنے والا ہو۔ ولی کے لیے کرامات شرط نہیں بلکہ محمود سمجھی گئی ہیں۔ ولی اللہ تعالیٰ کی عطا سے محفوظ ہوتا ہے۔ ولی دنیا میں لاکھوں ہوئے ہیں۔
دکن کے علاقوں میں حضور پیرانِ پیر غوثِ اعظم دستگیر رضی اللہ عنہ کی اولادِ امجاد میں سے سات بزرگ ایسے ہیں جن کو ’’سبعہ قادریہ‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ سبعۂ قادریہ کو ’’سبعۂ سیارہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ جن کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں:
1۔ سید السادات حضرت سیدنا سید شاہ عبدالطیف لااُبالی قادری الحموی ؒ(کرنول شریف)
2۔ سید السادات حضرت سیدنا سید شاہ اسحاق ثناء اللہ قادریؒ (کرنول شریف)
3۔ سید السادات حضرت سیدنا سید شاہ میراں حسین قادری البغدادیؒ (لنگر حوض، حیدرآباد)
4۔ سید السادات حضرت سیدنا سید شاہ رفیع الدین قادریؒ (شیخ پیٹھ، حیدرآباد)
5۔ سید السادات حضرت سیدنا سید شاہ جمال البحر معشوقِ ربانیؒ (ورنگل)
6۔ سید السادات حضرت سیدنا سید شاہ اسماعیل قادریؒ (نیلور ضلع گلبرگہ)
7۔ سید السادات حضرت سیدنا سید شاہ ابوالحسن قادریؒ (بیجاپور، ضلع گلبرگہ)
حضرت سیدنا پیر شاہ محی الدین ثانی قدس سرہ‘ حضرت سید شاہ عبداللطیف لااُبالی قدس سرہ‘ کے تیسرے صاحبزادے ہیں۔ شکل و شباہت میں حضور پیرانِ پیر قدس سرہ‘ سے کامل مشابہت رکھتے ہیں۔ عمر بھی غوثِ پاکؓ کی عمر کے مطابق 91 سال کی ہوئی۔ آپ نے حضرت میراں حسین بغدادی قدس سرہ‘ کی پوتی حضرتہ بی بی صاحبہؒ بنت حضرت سید شاہ عبدالقادر ملکاپوریؒ سے نکاح فرمایا۔ آپ کو تین صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں تھیں۔ بڑے صاحبزادے حضرت سید شاہ عبدالمحی الدین قادریؒ تھے جو آپ کے سامنے وفات پاگئے اور لنگر حوض میں مدفون ہیں۔ دوسرے صاحبزادے حضرت سید شاہ عبداللطیف ثانی قادریؒ ہیں جو آپ کے بعد آپ کے جانشین ہوئے۔ آپ کے تیسرے صاحبزادے حضرت سید پیر پاشاہ قادریؒ تھے جو ہمیشہ جذب کے عالم میں رہا کرتے تھے۔ حضرت پیر شاہ محی الدین ثانیؒ کی اولاد میں حضرت سید شاہ موسیٰ قادری قدس سرہ‘ بہت مشہور ہیں جن کی درگاہ حیدرآباد میں پرانے پل سے قریب مشہور و معروف ہے۔
ولادت باسعادت: 1023ء میں بمقام قمر نگر کرنول پیدا ہوئے اور وہیں پروان چڑھے۔ مشکوٰۃ النبوت میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت موصوف علیہ الرحمہ کے والد بزرگوارحضرت سید شاہ عبداللطیف قادری الحموی المقلب لااُبالی الکرنولی قدس اللہ تعالیٰ سرہ‘ العزیزکا یہ عمل تھا کہ جب بھی کوئی صاحبزادے کی ولادت کی خبر سنتے تو دولت سّرا میں تشریف لاکر تکبیر و اقامت مسنونہ کے بعد اُن کا نام رکھتے اور جناب باری کی آگاہی سے اُس صاحبزادے کے مراتب اور ولایت کی خبر دیتے۔ چنانچہ تیسرے صاحبزادے حضرت جناب عالی لااُبالیؒ نے اپنے فرزند کو آغوش میں لے کر بعد تکبیر و اقامت فرمایا کہ بابا محی الدین (40) چالیس سال کی عمر میں مرتبہ قطبیت پر فائز ہوں گے اس کے بعد آپ نے اپنے صاحبزادے کی پیشانی پر بوسہ دیا اور اپنی زوجہ محترمہ کے حوالے کردیا۔ حضرت جناب عالی لااُبالیؒ نے اپنے فرزند کو قطب الاقطاب کی بشارت دی اور تقسیم وراثت کے سلسلہ میں اپنے اس صاحبزادے کو اپنا جبۂ خاص یا نیم جامہ جو آپؒ اپنی عَبا کے نیچے پہنا کرتے تھے عطا کیا۔
صاحب لطائف قادریؒ یہ بھی نقل کرتے ہیں کہ حضرت سیدی محی الدین ثانیؒ نے ایک مختصر عرصہ میں تکمیل علوم فرمائی اور اپنے معاصرین پر فائق ہوگئے بعد ازاں اپنے پدر بزرگوار سے علوم باطنی حاصل کرکے آپ کے سلسلہ ارادت میں منسلک ہوگئے۔ آپ والد بزرگوارؒ کے مرید تھے چونکہ کمسنی میں والد بزرگوار کا سایہ سر سے اُٹھ گیا تھا اس لئے اپنے والد ماجد حضرت سیدی لااُبالیؒ کے جلیل القدر خلیفہ حضرت صوفی شیخ علی صاحب قبلہ الکرنولیؒ سے حضرت سید شاہ پیر شاہ محی الدین ثانی قادریؒ نے سلسلہ قادریہ میں خرقۂ خلافت اور اجازت مطلقہ حاصل فرمائی۔
حیدرآباد میں آمد: حضرت سید شاہ پیر شاہ محی الدین ثانی قادریؒ سن بلوغ کو پہنچے تو باطنی اشارہ پر 1047ھ میں بلدہ حیدرآباد تشریف لائے اور اندرون شہر دروازہ پل قدیم کے قریب مسجد عنبری میں سکونت اختیار کی۔ اس زمانہ میں حضرت سیدی محی الدین ثانیؒ نے سیدی عبدالقادر قادریؒ ملکا پوری خلیفہ حضرت غوث الثانی سید شاہ میراں حسین قادری الحموی البغدادی علیہ الرحمہ کی بڑی صاحبزادی سیدہ مسماۃ بی بی صاحبہ سے عقد فرمایا اور چوبیس سال خسر کے مکان لنگر حوض میں مقیم رہے۔ حاصل کلام و خلاصہ تحریر یہ کہ حضرت سیدی محی الدین ثانیؒ اجازت مطلقہ کے حصول اور اپنے پدر بزرگوار کی وفات کے بعد شہر حیدرآباد تشریف لائے۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ آپ کچھ عرصہ تک شہر کے نواح میں سکونت پذیر رہے۔
بعد ازاں بالہام الٰہی چند فقراء اور خدام کے ساتھ آپؒ پرانے پل کے دروازہ سے شہر میں داخل ہوئے اور ایک قدیم مسجد میں سکونت اختیار کی۔ حاضرین نے عرض کیا کہ یہاں ایک آسیب خبیث ہے جس کی وجہ سے یہاں کوئی نہیں رہ سکتا بلکہ لوگ اس راستہ سے رات کا کچھ حصہ گذرنے کے بعد آمد و رفت بھی بند کردیتے ہیں۔ چہ جائیکہ یہاں قیام کیا جائے۔ اور بعضوں نے عرض کیا کہ جب رات ہوتی ہے تو صاحب گنبد جس کا نام ملک عنبر تھا اور جو خبیث ہوگیا ہے اور اس راہ گذر سے چلنے والوں کو ہلاک کردیتا ہے اور اکثر لوگوں کو پکڑ کر مسجد کے کنویں میں ڈال دیتا ہے۔ چنانچہ یہ کنواں ڈھانچوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ آدھی رات کے بعد وہ اپنی قبر سے نکلتا ہے اس کا قد دو تاڑ کے درختوں کی بلندی کے مساوی ہوتا ہے وہ اپنی دونوں پنڈلیوں کو پھیلاکر راستہ پر کھڑا ہوجاتا ہے اور اس کے دونوں خصیہ زمین پر لٹکتے رہتے ہیں اور اس کی قبر سے روزآنہ توبہ اور آہ وزاری سنائی دیتی ہے جس کے سننے سے تمام لوگوں کی روح فرسا ہوجاتی ہے۔
یہ سن کر حضرت سید شاہ پیر شاہ محی الدین ثانیؒ نے ارشاد فرمایا کہ جس جگہ بلا ہو وہی فقراء کی اقامت گاہ ہے آپ فصیل میں داخل ہونے کے بعد اس گنبد میں ایک رات اور ایک دن قیام کیا۔ راوی کا بیان ہے کہ اس وقت سے آج تک اس کی قبر سے گریہ وزاری اور توبہ کی آواز سنائی نہ دی اور نہ کسی نے اس کو دیکھا۔ اس کے بعد آپ چند روز اس قدیم مسجد میں معتکف رہے اور اسی کے قریب حضرتؒ مدفون ہوئے۔ صاحب لطائفؒ یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ جب حضرت سیدشاہ پیر شاہ محی الدین ثانیؒ حیدرآباد وارد ہوئے تو آپ کے حالات اور خوارق عادات سے واقف ہوکر کئی لوگ بغرضِ ارادت آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے لیکن حضرتؒ نے بہت سے کم لوگوں کو بیعت سے سرفراز کیا۔ الغرض شہر میں آپ کی آمد کی شہرت ہوگئی۔
اس وقت قدوہ المشائخ بلدہ شاہ ابدال سید میراں حسینی الحموی تھے اور ایک روایت کے بموجب آپ کے صاحبزادے حضرت سید عبدالقادر قادری تھے۔ واضح ہو کہ حضرت شاہ محی الدین ثانیؒ نے ان دونوں بزرگوں سے ملاقات فرمائی۔ حضرت سید عبدالقادر بن سید میراں حسین الحموی قدس اللہ تعالیٰ سرھما آپ کی تشریف آوری کو مغتنم جان کر اپنی صاحبزادی بی بی صاحبہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما کو آپ سے منسوب کیا۔ بظاہر یہ نسبت شریفہ آپ کی یہاں مستقل سکونت کا باعث ہوئی۔ آپ کی اولاد امجاد بھی تاحال یہاں سکونت پذیر ہے اور آپ کی خانقاہ آج بھی بارونق ہے۔
اظہار کرامت:حضرت رحمۃ اللہ علیہ پیدائشی ولی اور قطب وقت تھے۔ خرق عادت کے تعلق سے متعدد واقعات مشہور ہیں۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ حضرت سید شاہ پیر شاہ محی الدین ثانیؒ کی عمر شریف 7 سال کی تھی جبکہ آپ کے پدر بزرگوار کا مکان زیر تعمیر تھا جب شہتیر نصب کئے جانے لگے تو ایک شہتیر طول میں نصف گز کم پڑی دوسری شہتیر خریدنے کا ارادہ ہوا اس اثناء میں آپ مکتب سے اپنے مکان کو واپس ہورہے تھے اتفاق سے آپؒ کا گذر اسی مقام سے ہوا جہاں وہ شہتیر پڑی ہوئی تھی۔ آپ نے دریافت کیا کہ اس کو کیوں نصب نہیں کیا گیا۔ لوگوں نے اس کی وجہ لمبائی میں کمی بیان کی۔ حضرت سیدی محی الدین ثانیؒ نے اس شہتیر کا ایک سرا پکڑ کر اپنی جانب کھینچا کہتے ہیں کہ اسی وقت اس کی لمبائی نصف گز بڑھ گئی۔ حاضرین نے اس واقعہ سے متحیر ہوکر جب یہ واقعہ حضرتؒ کے والد بزرگوارؒ سے بیان کیا تو حضرت سیدی لااُبالیؒ نے اپنے فرزند ارجمند سے ارشاد فرمایا کہ بابا غلام محی الدین ثانیؒ تم اس کمسنی میں خرق عادت کا اظہار کررہے ہیں ایسا معلوم ہوتاہے کہ تم قمر نگر میں میرے نزدیک نہ رہو گے آخر ایسا ہی ہوا کہ آپؒ نے پدر بزرگوارؒ کی رحلت کے بعد نقل مقام کرکے حیدرآباد میں سکونت اختیار فرمائی۔
حاصل کلام یہ کہ حضرتؒ اپنے وقت کے زبردست صاحب کشف و کرامات بزرگ اور کامل صوفی تھے۔ مراقبہ اور مکاشفہ میں بے نظیر تھے۔ سارا وقت مجاہدہ میں گذرتا تھا اور زندگی کا اکثر حصہ بیابان و تنہائی میں گذارتے رہتے تھے۔ شادی کے بعد بھی حضرت علیہ الرحمہ نے چالیس برس تنہائی اور صحرا نوردی میں گذارے۔ البتہ اس اثناء میں خسر بزرگوارؒ سے ملنے کبھی ملکہ پور تشریف لاتے تھے۔ مشکوۃ النبوت میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت سیدی محی الدین ثانیؒ ابتداء شعور ہی سے کسب علوم ظاہری و باطنی، اشغال باطنی، ریاضاتِ شاقہ اور مجاہدات کی جانب راغب تھے۔ آپ اکثر مغلوب الحال رہتے اور کبھی کبھی افاقہ بھی ہوجاتا ۔ آپ کے عالم استغراق کا یہ حال تھا کہ ایک ایک ہفتہ ایک ہی نشست میں گذار دیتے اور آپ کو عالم فساد سے کچھ آگاہی نہ ہوتی جب عالم ناسوت کی جانب رجوع ہوتے تو تھوڑی دیر تک اس عالم میں رہنے کے بعد پھر سے مستغرق ہوجاتے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ایک روز حضرت سیدی محی الدین ثانیؒ حقہ نوش فرمارہے تھے کہ آپ پر عالم استغراق طاری ہوگیا۔ آپؒ اسی عالم محویت میں تھے کہ حقہ کی آگ آپ کے دست مبارک پر گری اور ہاتھ کو جلاتے ہوئے ہڈی تک پہونچ گئی لیکن آپ کی محویت میں کچھ فرق نہ آیا۔ سبحان اللہ، راوی کا بیان ہے کہ جب جلد کے جلنے کی بو اطراف واکناف میں پھیل گئی۔ ایک درویش نے جس کو آپ نے خرقہ عنایت فرمایا تھا لیکن کسی لقب سے ملقب نہ کیا تھا آپ کے جسم مبارک کو بے تامل ہلانا شروع کیا اور کہا کہ اے شاہ بیدار ہوجائیے کہ آپ کا دست مبارک جل رہا ہے۔ حضرت سیدی محی الدین ثانیؒ نے آنکھیں کھولیں اور فرمایا کہ عجیب حیوان ہو اس درویش نے سوچا کہ حضرت نے مجھ کو خرق مرحمت فرمانے کے بعد کسی نام سے مخاطب نہ کیا تھا آج آپ نے مجھے حیوان کہا چنانچہ اس نے اپنا لقب حیوان شاہ اختیار کیا۔ کیا اعلیٰ مقام استغراق ہے کہ حقیقت حال کے غلبہ کے باعث مجاز کی جانب توجہ تک نہ ہوئی۔ الحمداللہ۔ آپ کی کیا والا منزلت ہے کہ آتش عشق میں جلنے کے بعد دوسری آگ بے اثر ہوکر رہ گئی تھی۔
وصال: حضرت ممدوح ؒ کا وصال 4 ؍رجب المرجب 1101ھ کو ہوا۔ آپ کی مزار مبارک حیدرآباد میں حسینی عَلم سے پرانے پل کو جانے والی سڑک کے دائیں جانب درگاہ حضرت سید شاہ موسیٰ قادری رحمۃ اللہ علیہ کے اندر واقع ہے۔ ہر سال ماہ رجب کی چاند رات سے 7 رجب المرجب کو آپ کا عرس مبارک بہت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ جلوس صندل مبارک ہر سال 5 رجب المرجب کو آپ کے پوترے حضرت سید شاہ درویش محی الدین ثانی قادری رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ شریف واقع کاروان ساہو سے معہ ضربات رفاعیہ جلوس کی شکل میں ہزاروں عقیدت مندوں اور مریدوں کے ہمراہ سجادہ نشین حضرت مولانا سید شاہ محمد فضل اللہ قادری الموسوی صاحب قبلہ کی نگرانی میں درگاہ حضرت موسیٰ قادری رحمۃ اللہ علیہ کو پہنچتا ہے۔ تمام مراسم عرس مبارک حضرت سجادہ نشین و متولی انجام دیتے ہیں۔ اور آج بھی یہاں بلا لحاظ مذہب و ملت لوگ آتے ہیں اور فیض حاصل کرتے ہیں۔
ہر ماہ چاند کی 5 تاریخ کو حضرت سید شاہ پیر شاہ محی الدین ثانی قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ماہانہ فاتحہ ، محفل قصیدہ بردہ شریف بمقام خانقاہ صوفیہ الموسویہ میں بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ منعقد ہوتی ہے۔ اور ہر ہفتہ بعد نماز جمعہ حلقہ ذکر اللہ اور حضرت سجادہ نشین و متولی صاحب قبلہ کا بیان ہوتا ہے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی جاتی ہے۔
حضرت سجادہ نشین و متولی صاحب کے تین صاحبزادے ہیں، جن میں پیر زادہ سید شاہ واصف عالم قادری الموسوی، پیر زادہ سید شاہ مختار عالم قادری الموسوی، پیر زادہ سید شاہ تنویر عالم قادری الموسوی ہیں۔
٭٭٭