یوم عاشورہ۔اہمیت وعظمت

[]

مفتی حافظ سیدصادق محی الدین فہیمؔ
Cell No. 9848862786

نظام کائنات میں گرد شِ لیل و نہار کا ایک تسلسل ہے ،جو قدرت خداوندی کا عظیم کرشمہ ہے ،اس نظام میں سال کے بارہ مہینے ہیں،ارشاد باری ہے ’’آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے وقت ہی سے کتاب الہی یعنی لوحِ محفوظ میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں‘‘ اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْھَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ (توبہ؍۳۶) اوروہ ذوالقعدۃ الحرام ، ذوالحجۃ الحرام، محرم الحرام، اور رجب المرجب ہیں، زمانۂ قدیم سے ان مہینوں کے محترم( حرمت والے )ہونے پرسب کا اتفاق ہے ،دورِ جاہلیت گرچہ صدہا خرافات، بیجا رسوم و رواجات کا زمانہ رہا ہے لیکن ان مہینوں کی حرمت ان کے دلوں میں رچی بسی تھی اس لئے جنگ و جدال کےعادی ، اخلاق و کردار،انسانی عالی اقدار سے عاری جاہلی دورکےانسان بھی ان مہینوں کی حرمت کابڑاپاس و لحاظ رکھتے،قتل و غارت گری جن کا مشغلہ تھا، دشمن کے خون کے جو ہر وقت پیاسے رہا کرتے تھے، انتقام کی آگ میںجھلستے اور اس قدر بھڑکتے کہ دشمن سے بدلہ لئے بغیر نہ ان کو سکون ملتانہ چین و قرار آتا، وہ بھی ان حرمت والے مہینوں میں قتل و قتال اور خوں ریزی سے باز آجاتے، ہر طرح کی ظلم و زیادتی اور ایذاء رسانی، عداوت و انتقام کو اپنے اوپر حرام کر لیتے، یہاں تک کہ اپنے باپ کے قاتل سے آمنا سامنا ہو تا تب بھی وہ انتقام سے گریز کرتے اور چشم پوشی سے کام لیتے، الغرض ہر دور میں ان مہینوں کی عظمت اور ان کے احترام کی بڑی اہمیت رہی ہے ۔

حرمت والے اور مہینوں میں محرم الحرام کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اسلامی تاریخ کے اعتبار سے نئے سال کا آغاز اسی سے ہوتا ہے، اس مبارک مہینہ کی دسویں تاریخ کادن ’’یوم عاشورہ ‘‘ہے، اس کی اہمیت روز اول ہی سے مسلّم ہے۔ کئی ایک یادگار تاریخی اہم واقعات اس دن کے صدفِ گرانمایہ میں لاقیمت موتیوں کی طرح محفوظ ہیں۔ یہی وہ مبارک دن ہے جس میں ہم سب کے جدامجد حضرت سید نا آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ،اسی دن وہ جنت میں داخل کئے گئے اور اسی دن حق سبحانہ و تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی، یہی وہ دن ہے جس میں آسمان و زمین کو خلعت وجود بخشا گیا، اور قلم کی تخلیق ہوئی، یہی وہ تاریخ ساز دن ہے جس دن اللہ سبحانہ نے سفینۂ حضرت نوح علیہ السلام کو کوہ جودی کی آغوش میں بحفاظت تمام پناہ دی ، حضرت سید نا ابراہیم علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی اسی مبارک دن میں ہوئی،آپ علیہ السلام سےنمرودکی عداوت و دشمنی ،حسدوجلن، انتقام کی جوآگ اس کےسینہ میں شعلہ زن تھی اس کو بجھانے کی غرض سے ایسی آگ دہکائی کہ جس سے ایک محدود علاقہ تک ہی نہیں بلکہ میلوں مسافت تک تباہی و بربادی رونما ہوسکتی تھی، لیکن کرشمہ قدرت کہ اللہ سبحانہ نے آپ علیہ السلام کے حق میں آج ہی کے دن اس کو گل و گلزار بنا دیااورآپ علیہ السلام کی حفاظت کا ایسا معجزانہ انتظام فرمایا کہ دشمن انگشت بدنداں رہ گئے ، اسی دن اللہ سبحانہ نے آپ علیہ السلام کو نعمت خلت سے سرفراز فرمایا۔ حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام اورآپ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کواللہ سبحانہ نے فرعون کے مظالم سے آج ہی کے دن نجات عطافرمائی، فرعون اور اس کے لشکر کو حق سبحانہ نے اسی دن دریائے نیل میں غرقاب کر کے قیامت تک آنے والی انسانیت کو ظلم کے انجام بد سے آگہی بخشی، یہی وہ مبارک دن ہے جس میں حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمانوں پراٹھالیا گیا جس سے آپ علیہ السلام کواللہ سبحانہ نے مزیدرفعت و عظمت عطا فرمائی یہی وہ دن ہے جس میں حضرت ایوب علیہ السلام کو آزمائش و ابتلاء سےنجات عطافرما کر شفاء کلی بخشی گئی۔ حضرت دائود علیہ السلام کی توبہ بھی اللہ سبحانہ نے اسی دن قبول فرمائی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اسی دن حکومت و سلطنت سےنوازاگیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی بھی اسی مبارک دن واپس لوٹائی گئی، آپ علیہ السلام کے فرزند جلیل حضرت یوسف علیہ السلام کو کنعان کے کنویں سے اسی دن زندہ وسلامت نکالا گیا۔ حضرت یونس علیہ السلام بھی مچھلی کے پیٹ سے بحفاظت تمام اسی دن باہر نکالے گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی اسی مبارک دن ہوئی اور اسی مبارک دن آسمانوں کی طرف اٹھا لئے گئے۔ روایات کی رو سے قیامت کا وقوع بھی اسی دن ہوگا۔سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک نکاح ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سےاسی دن ہوا(ملخص از : مسند احمد ۳؍۱۸۷،۱۴؍۳۳۵)۔

آج سے چودہ سو سال قبل اسی دن ایک عظیم سانحہ رونما ہوا، کچھ بدبختوں نے نواسۂ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) جگر گوشہ بتول حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا و نور نظر لخت جگر خلیفہ راشد حضرت سید نا علی کرم ا للہ وجہہ ورضی اللہ عنہ (حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل خانہ ) کو بڑی بیدردی سے شہید کر دیاگیا۔ یوم عاشورہ کو عام طور پر اس عظیم واقعہ کی وجہ اہم مانا جاتا ہے، یقینا اس اندوہناک سانحہ نے اس دن کی تاریخ کے کئی ایک زرین واقعات میں ایک اور عظیم واقعہ شہادت کا اضافہ کر دیا ہےجومغموم دلوں اوراشکبارآنکھوں سے سنا اور پڑھا جاسکتا ہے جس کو تاقیام قیامت بھلایا نہیں جاسکتالیکن اس شہادت عظمی کے عظیم سانحہ نےحق وباطل کے درمیان ایک لکیرکھینچ دی ہےاوریہیں سے ان دونوں کی راہیں متعین ہوگئی ہیں،ایک حسینیت اور دوسرے یزیدیت، اسی دن سےحق کےراہی حسینیت کےعلمبرداراورباطل کے پرستار یزیدیت کے طرفدار قرار پاگئے۔ اہل بیت اطہار عالم روحانیت کا خورشید خاور ہیں اِس مبارک خانوادہ کو حضرت سید نا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عظیم نسبی نسبت کےساتھ سببی نسبت(شرف صحابیت) حاصل ہے جن کے احسانات امت مسلمہ ہی پر نہیں بلکہ ساری انسانیت پر ہیں تا قیام قیامت سارے انسان ملکر بھی ان کا بدلہ نہیں چکا سکتے، اہل بیت اطہار کی شہادت نے اس مبارک دن کو تاریخ ساز بنادیا ہے۔ حقیقی معنی میں حسینی کردارسےمحبت رکھنے والوں کےلئے اس میںایک عظیم پیغام ہے جب جب ظلم کی آگ شعلہ بداماں ہو،باطل طاقتیں حق کے خلاف سازشیں رچ رہی ہوں توپھروہ ہاتھ پرہاتھ دھرےبیٹھے نہ رہیں بلکہ حق سبحانہ کی خوشنودی کیلئے سربکف باطل کے خلاف نبردآزما ہوں اور ضرورت داعی ہوتوبلاتردد اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنےسے بھی دریغ نہ کریں ۔

جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا (مرزاغالبؔ)

یہی پیغام حسینیت ہے ،یزیدی طاقتیں کسی وقت بھی سرابھارسکتی ہیں ،حسینی کردار ہی ان کو پسپا کرسکتا ہے ،اس لئے اسی (حسینی کردار ) کو نقوش راہ بنانے کی ضرورت ہے۔اہل بیت اطہار کی محبت جز ءایمان ہے، اس لئے مسلمانوں کے قلوب ان کی محبت سے سرشار ہیں ،اس پاکیزہ مبارک ومقدس خاندان سے امت مسلمہ کی نسبت ،تعلق و محبت کوئی وقتی اور جذباتی نہیں ہے ،بلکہ وہ ایمانیات واعتقادات سے جڑی ہوئی ہے ۔

افسوس صد افسوس ظالموں نے حضرت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کو جو ایذاءپہونچائی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ لفظوں میں طاقت کہاں کہ اس داستان ِ غم کوکماحقہ بیان کرسکیں ، قلم کو یارا نہیں کہ صفحۂ قرطاس پرکوئی اس کو رقم کرسکے اور اس عظیم واقعہ کی سنگینی کا احاطہ کر سکے، یہاں الفاظ بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، قلم کی سیاہی خشک ہوجاتی ہے ، لفظوں کے رنگ و نقوش قرطاس پرجمنے نہیںپاتے ،غم و اندو ہ سے زبان گنگ ہوجاتی ہے ،،سراپا سوز و غم سے افسردہ کوئی اس واقعہ کو تحریر کا جامہ پہناناچاہے تو اشکوں سے آنکھیں دھندلاجاتی ہیں،بیان کرناچاہےتوزبان کپکپانے لگتی ہے، قلب و ذہن ماؤوف ہوجاتے ہیں ،یہ وہ شہادت عظمٰی ہے جس نے اسلام کو حیات تازہ بخشی گوکہ ارض کربلا اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے پاکیزہ خون سے لالہ زار ہوگئی لیکن اس سے چمنستان اسلام سرسبز و شاداب ہوگیا،رنج و غم میں انسان تو انسان کائنات کا ذرہ ذرہ خون کے آنسو روتارہا یہ واقعہ جب بھی پڑھا جائے گا ، سنا جائے گا ، پھر سے غم تازہ ہوجائے گا ،پلکیں بھیگے بغیر نہیں رہ سکیں گی ،الغرض داستانِ کرب و بلا مصائب و آلام کی ایک ایسی غم ناک روئداد ہے کہ جس کی نظیر تاریخ کے اوراق کبھی پیش کر سکیں۔ حق و باطل کی جنگ اور خیر و شر کی اس معرکہ آرائی نے استقامت ِحق کی ایسی شمع روشن کی کہ اس کی روشنی سے نیکی و بدی کی راہیںمتعین ہوگئیں، شہادت ِ حضرت سیدنا حسین و شہادت اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم سےحسینی کردار حق کی علامت بن گیا،صبر و استقامت کے وہ زریں نقوش چھوڑے جس کو انسانیت کبھی فراموش نہیں کرسکتی جس سے اسلام کو تابندگی وحیات جاوداںملی

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

اسی شہادت عظمی سے یزیدیت کی بیخ کنی و باطل کی سرکوبی ہوئی، ناکامی و نا مرادی ،ذلت و رسوائی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یزیدی طاقتوں کا مقدر بن گئی ۔ اس واقعہ نے دنیائے انسانیت کو ایک عظیم درس دیاکہ حق پر قائم رہتے ہوئے پرچم حق بلند رکھنے اور باطل سے نبرد آزما ہونے کا نام ہی دراصل اسلام ہے اس کے لئے جان و مال اورگھر بار کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے ۔

یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

خاندان نبوت وہ مقدس و پاکیزہ خاندان ہے کوئی اس کاہم پلہ نہیں ہوسکتا ،اس عظیم خانوادہ کے بے مثل و بے مثال پاکیزہ نفوس نے جامِ شہادت نوش فرماکر حق کا چراغ روشن کردیا ہے، جس سے باطل کو ایسے منہ کی کھانی پڑی ہے کہ وہ اب قیامت تک صورت دکھانے لائق نہیں رہا ہے، جب جب اسلام دشمن باطل طاقتیں سراٹھائیں گی حق کے جیالے اس پاکیزہ شہادت سے روشنی حاصل کرکے باطل کی سرکوبی کرتے رہیںگے۔واقعہ شہادت عظمیٰ اسلامی تاریخ کاروشن باب ہے،اس کے اسرار و رموز اس شعرمیں موزوں کردئیےگئے ہیں؎

غریب و سادہ ورنگیں ہے داستان حرم
نہایت اسکی حسین ابتدا ہیں اسماعیل

حضرت سیدناحسین رضی اللہ عنہ کے ناناجان ہم سب کے آقا و مولی سیدنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو باطل نے کبھی ٹھنڈےپیٹ قبول نہیںکیا،یہی وجہ ہے کہ مکہ مکرمہ کی سرزمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوراصحاب کرام رضی اللہ عنہم کےلئے سازگارنہیں رہی یہاں تک کہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکےمدینہ منورہ کومسکن بنالینے کا حکم نازل ہوالیکن کفارومشرکین نے یہاں بھی عرصہ حیات تنگ کرنے کی ناپاک سازشیں جاری رکھیں، ان کے دفاع کےلئے بذریعہ وحی اللہ سبحانہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سےجنگ کرنے کاحکم فرمایا۔چنانچہ پہلی جنگ سن ۲ہجری مقام بدرمیں ہوئی،اس میں مشرکین کوہزیمت اٹھانی پڑی،سن ۳ہجری میں جنگ احدکاواقعہ پیش آیا،سن ۵ہجری میں خندق کے مقام پردشمنان اسلام سے مقابلہ آرائی ہوئی،سن ۷ہجری میں یہودیوں سے غزوہ خیبرکی نوبت آئی اوراس میں یہودیوں کوشکست فاش ہوئی،سن ۷ہجری میں مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان صلح حدیبہ کا عظیم واقعہ پیش آیا،اللہ سبحانہ نے اس صلح کے عظیم نتائج مسلمانوں کو عطافرمائے اورفتح مکہ کی صورت میں مسلمانوں کوکامیابی کاایک عظیم تحفہ ملا۔سن ۸ہجری میں سیدنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کودشمنوں سےکسی مقابلہ آرائی کے بغیرفتح مکہ کی سوغات ملی جس کی وجہ پھرسے مسلمان مکہ مکرمہ میں فاتح بن کرداخل ہوئے،سن ۹ہجری میں غزوہ تبوک کا واقعہ پیش آیا۔الغرض حق وباطل کے درمیان ٹکرائوکے کئی واقعات دنیا کی تاریخ میں رقم ہیںچونکہ اللہ سبحانہ کا وعدہ ہے ’’تم نہ سستی کرونہ رنجیدہ غمگین ہو،تم ہی غالب رہوگے اگرتم ایمان پرقائم رہو‘‘ (آل عمران؍۱۳۹)۔باطل ہمیشہ حق کو شکست دینے کے حربے استعمال کرتارہاہےلیکن حقیقی معنی میں جو سچے مومن ہیں ان کےلئے رنج وغم کا کوئی موقع نہیں ہے کیونکہ اللہ سبحانہ نے ان کو ہمیشہ سربلندرکھناطئے فرمالیاہے ،یہی وجہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمیمون اورخلفاء راشدین کے مبارک ادوارمیںجب بھی باطل نے حق سے ٹکرانے کی کوشش کی اس کوناکامی کا منہ دیکھناپڑاہےاوروہ ذلیل ورسواہواہے۔صبح قیامت تک حق پرچلنےوالوں کےلئے خلاق عالم کا یہ وہ وعدہ ہے جو ضرور پورا ہوگا إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ (آل عمران؍۹) لیکن شرط یہ ہے کہ ایمان عزیزازجان ہو،حق کےلئےسب کچھ لٹانے کا جذبہ دلوںمیں موجزن ہو،یقیناایمانی قوت ایسی ابدی و سرمدی قوت ہے جس کے آگے کبھی باطل قدم جمانے کی جرأت نہیں کرسکتا، ایمان وایقان کی شمع جب تک اہل حق کےقلوب میں روشن رہے گی دنیا کی کوئی طاقت ان کوہزیمت سے دوچارنہیں کرسکےگی ،اگرچہ کہ مادی وسائل کی اہمیت ضرورہے لیکن آلات حرب کی کمی ، تعداد کی قلت ،بےسروسامانی کے باوجوداللہ سبحانہ نے اہل حق کو فتح ونصرت بخشی ہے اورقیامت تک اہل حق کے لئے یہ مژدئہ جانفزا ہےکہ وہ بھی احقاق حق کے لئے سر کٹانے کاجذبہ اپنے سینوں میں بیداررکھیں تو قلت وکثرت، اسباب کی فراوانی کوئی معنی نہیں رکھتی بشرطیکہ اہل حق ایمانی کیفیات سے سرشاردشمن کےآگےسینہ سپر، صبروثبات کےکوہ استقامت بنیں، بارگاہ ایزدی میں دعائوں کےاہتمام کےساتھ مقابلہ کریں یہی راہ حسینیت ہے۔

المختصر یوم عاشورہ کی فضلیت و عظمت مسلّم ہے، اسی لئے اس دن کا روزہ رکھنا افضل و مسنون ہے، حضرت سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ سے قبل دورِجاہلیت میں قریش اس دن روزہ رکھا کرتےتھے خود حضرت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہجرت سے قبل مکہ مکرمہ میں اس دن روزہ کا اہتمام فرماتے۔ہجرت کے بعد مدینہ منورہ رونق افروز ہوئے تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ کے روزہ پر مداومت فرمائی اور اہل مدینہ کو بھی روزہ رکھنے کی تلقین فرماتے رہے (سنن ابی دائود ۲؍۳۲۶)سابقہ اقوام کےہاں یہ روزہ فرض کےدرجہ میں تھا، رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سےقبل تک اس امت پربھی یہ روزہ فرض رہاہےلیکن فرضیت ماہ صیام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن امت کویہ اختیار دے دیا کہ جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے(بخاری شریف ۲؍۱۴۸) چنانچہ شارحین نے لکھا ہے کہ عاشورہ کا روزہ پہلے فرض تھا لیکن جب رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کا حکم نازل ہوگیا تو عاشورہ کے روزہ کی فرضیت باقی نہیں رہی البتہ اس کی افضلیت اب بھی باقی ہے(بذل المجہود فی حل سنن ابی دائود ۸؍۶۶۱ )

مدینہ منورہ میں آباد یہود اس دن روزہ رکھا کرتے اور اس کو عید کا دن خیال کرتےتھے (صحیح مسلم ۲؍ ۷۹۶)۔ اس دن کےروزہ سے متعلق جب ان سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا یہ وہ عظیم اور بابرکت دن ہے جس میں اللہ سبحانہ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن فرعون سے نجات بخشی،اس کے شکرانہ میں حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھااس لئے ہم بھی روزہ رکھتےہیں، اس پر حضرت سید نا محمدرسول اللہ ﷺ نے فرمایا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت تم سے زیادہ ہم اس کا حق رکھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی روزہ رکھا اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کوبھی روزہ رکھنے کی ہدایت فرمائی ’’فاَنَا اَحق بموسیٰ منکم فصا مہ و امربصیامہ ‘‘ (بخاری شریف؍ ۱۸۸۰) ۔صحیح بخاری (۵؍۷۰)و مسلم ( ۲؍ ۷۹۵) کی روایتوں میں ’’و نحن نصومہ تعظیما لہ‘‘ کے الفاظ مروی ہیں،مسند احمد (۱۴؍۳۳۵) میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں ’’وھوالیوم الذی استوت فیہ السفینۃ علی الجودي فصامہ نوح شکرا‘‘یہ وہ دن ہے جس دن حضرت نوح علیہ السلام کا سفینہ کوہ جودی سے جالگا جس کے شکرانے میںآپ علیہ السلام نے روزہ رکھا۔ اس سے واضح ہے کہ عاشورہ کا روزہ شکرانہ کا روزہ ہے اور اس روزہ سے اس دن کی عظمت بھی مقصود ہے ۔چونکہ مدینہ پاک کے یہود عاشورہ کے دن روزہ رکھا کرتے تھے حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا کہ یہود بھی روزہ رکھتے ہیں اور ہم بھی اس دن روزہ رکھیں گے ، اس سے بظاہر ان سے مشابہت معلوم ہوتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس میں فرق و امتیازکی غرض سے ) فرمایا کہ عاشورہ کے روزہ کے ساتھ نو(۹) محرم الحرام کو بھی روزہ رکھ لیا کرو تاکہ ان کے عمل سے مشابہت نہ ہو اور فرمایا ’’اگر زندگی وفا کرے تو آئندہ سال میں خود بھی ۹؍محرم الحرام کو روزہ رکھوں گا (معجم کبیر طبرانی ۱۱؍۱۶ )۔ لیکن آنے والے سال سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیائے فانی سے پردہ فرمالیااور مالک حقیقی سے جاملے، اس لئے یہود کی مشابہت سے بچنے کی غرض سے عاشورہ کے روزہ کے ساتھ ایک روزہ کا اضافہ مستحب ہے ،دس(۱۰) محرم الحرام کے روزہ کے ساتھ ،۹؍ محرم کو یاپھر ۱۱؍ محرم کو بھی روزہ رکھاجاسکتاہے، حدیث پاک میں وارد ہے و صوم یوم عاشوراء یکفر سنۃ ماضیۃ ’’عاشورہ کا روزہ گزرے ہوئے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے‘‘(مسند احمد ۲۷؍ ۲۲۱ )۔

اس سے کیا انکارکہ انسان خطا ونسیان کا پُتلہ ہے، جانے انجانےمیں خطائیں سرزرد ہوسکتی ہیں،یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کابے پایاں انعام و احسان ،نوازش و کرم ہے کہ اس طرح اس نے اپنی بے پناہ رحمتوں سے بندوں کوسرفرازکرنےاور اپنی عنایتیں و نوازشات ان پر نچھاور فرمانے کے اسباب پیدا فرمائے ہیں۔ بخشش و مغفرت کے دروازے اس نے کھلے رکھے ہیں، جن کی وجہ صغیرہ گناہوں کی تلافی ہوجاتی ہے اور چھوٹی موٹی لغزشوں اور خطائوں کے کفارہ کا سامان ہوجاتا ہے ،اس طرح کے اعمال صالحہ پر اللہ سبحانہ کی بخشش و مغفرت اور بے پناہ اجر و ثواب کا وعدہ اوران نیک اعمال کا پچھلی غلطیوں اور سابقہ صغیرہ گناہوں کا کفارہ بن جاناگویا اللہ سبحانہ کی جانب سے بندوںکے حق میںایک بہت بڑا انعام ہے جو دنیا میں باعث سکینت و رحمت اور آخرت کی کامیابی کا ضامن ہے،ارشادباری ہے’’بلا شبہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں‘‘(ہود؍۱۱۴) ۔ حدیث پاک میں واردہے و اتبع السیَّئۃ الحسنۃ تمحہا ’’ برائی کے بعد نیکی کرنابرائی کو مٹا دیتا ہے‘‘(ترمذی ۵ ؍ ۳۵۵ )۔ الغرض ابتداء آفرینش ہی سے یوم عاشورہ کی بڑی اہمیت و فضیلت ہےاوراس میں اہل حق کےلئےایک عظیم پیغام ہے، اللہ سبحانہ ہم سب کو اس سے روشنی حاصل کرنے اور اپنی زندگی کو عملی طور پر سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔
٭٭٭



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *