یمن کی مزاحمت کے جھنڈے تلے غیر مساوی جنگ، اسپوتنک کی رپورٹ

[]

مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، امریکی سیاسی محقق مائیکل پرینٹس نے کہا ہے کہ “معاشی تشدد جسمانی تشدد جیسا ہی ہے، لیکن اس کی رفتار کم ہے”۔ مثال کے طور پر 1990 کی دہائی میں عراق کے خلاف اقتصادی پابندیاں براہ راست نصف ملین عراقی بچوں کی موت کا باعث بنیں۔ اقتصادی پابندیاں بموں اور کروز میزائلوں کی طرح مہلک ہوسکتی ہیں۔

امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی کمزوری کا حوالہ دیتے ہوئے اسپوتنک نیوز ایجنسی نے ایک رپورٹ لکھی ہے جسے آپ ذیل میں تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں:

پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ حال ہی میں یمن کو نشانہ بنانے والے امریکہ اور برطانیہ کے ہتھیاروں کا موازنہ یمن کے پاس موجود ہتھیاروں سے نہیں کیا جا سکتا لیکن واشنگٹن اور یورپ فوجی اور اقتصادی لحاظ سے یمن کی نسبت زیادہ نقصان میں ہیں۔ آسان الفاظ میں، امریکہ، برطانیہ، یورپ اور اسرائیل اقتصادی اور عسکری دونوں لحاظ سے بہت کچھ کھوئیں گے۔

کیونکہ انصار اللہ بالکل بھی اکیلی نہیں ہے، بلکہ لبنان کی حزب اللہ جو آج دنیا کی سب سے موثر لڑاکا قوتوں میں شمار ہوتی ہے، بیروت میں تقریباً ایک لاکھ اعلیٰ تربیت یافتہ اور انتہائی حوصلہ افزا فورس رکھتی ہے، اور اب غیر رسمی طور پر اسرائیل سے جنگ لڑ رہی ہے اور یہ جنگ شاید آنے والے دنوں میں مزید شدت اختیار کرے گی۔

اکتوبر 1983 میں حزب اللہ میدان جنگ میں صرف دو مجاہدوں کو کھونے کے بدلے 305 امریکی اور فرانسیسی فوجیوں کو مارنے میں کامیاب ہوئی۔ ان میں سے 220 میرینز تھے اور یہ 1945 میں Iwo Jima کے بعد واشنگٹن کی مسلح افواج کی اس شاخ کی ایک دن میں سب سے زیادہ ہلاکتیں تھیں۔ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان 2006 کی جنگ میں کہ جس دوران اسرائیل نے جنوبی لبنان پر حملہ کیا، حزب اللہ نے صیہونی افواج کو “ناقابل تلافی نقصان” پہنچایا جس سے وہ لبنان سے دستبردار ہونے اور سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 پر دستخط کرنے پر مجبور ہوئیں۔

اگرچہ لبنانی متاثرین کی تعداد اسرائیلیوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ تھی، لیکن یہ جنگ تل ابیب کے لیے ایک تزویراتی شکست تھی۔ لہذا اسرائیل، امریکہ اور ان کے یورپی اتحادیوں کے لیے یہ بہت بہتر ہے کہ وہ تناؤ اور تشدد کو بڑھانے کا فیصلہ کرنے سے پہلے ان دونوں جنگوں کا اچھی طرح سے جائزہ لیں اور اسے تناو میں کمی کی طرف واپسی کے کسی مقام پر لے آئیں!

لبنان کی جنوبی سرحد پر حزب اللہ اور صیہونی فوج کے درمیان کشیدگی میں اضافہ نہ صرف جنگ کے موجودہ دائرے کو بحیرہ روم کے مشرق تک پھیلاتا ہے بلکہ یہ فوری طور پر حیفہ شہر کے لیے بھی سنگین خطرہ بن سکتا ہے جو لبنان کی سرحد سے صرف 32 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور  حیفا بندرگاہ لوڈنگ کی گنجائش کے لحاظ سے اسرائیل کی دوسری سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ جب کہ حیفہ ریفائنری سالانہ 66 ملین بیرل سے زیادہ خام تیل کو صاف کرتی ہے جو کہ یومیہ دس لاکھ بیرل سے زیادہ تیل کے برابر ہے۔ یہ بندرگاہ اور خاص طور پر اس کی ریفائنری سب سے اہم اہداف ہوں گے  جس سے اسرائیل کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔

یمن کے خلاف امریکی اور برطانوی بحری افواج کا بڑے پیمانے پر حملہ جنگی طیاروں اور تقریباً سو کروز میزائلوں (ہر ایک کی مالیت ایک ملین ڈالر سے زیادہ) کے ساتھ ہوا۔ اطلاعات کے مطابق ان حملوں میں پانچ یمنی اہلکار شہید ہوگئے۔ ان حملوں کے سادہ معاشی حساب و کتاب سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے مجموعی طور پر 100 ملین ڈالرز پانچ افراد کو مارنے اور اس کشیدگی کو بڑھانے کے لئے خرچ کئے جو پہلے ہی عروج پر پہنچ چکی تھی!

یمنی حکومت کی تصدیق کی بنیاد پر صرف اسرائیل یا اس سے منسلک بحری جہاز ہی خطرے میں تھے جب کہ بحیرہ احمر میں جہاز رانی کا بڑا حصہ بغیر کسی رکاوٹ کے عملی طور پر چلتا رہا۔ لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔ 

13 جنوری کے بعد، انٹرنیشنل یونین آف انڈیپنڈنٹ ٹینکر اونرز (انٹرٹینکو)، جو تمام بین الاقوامی ٹینکرز (گیس، تیل اور کیمیکلز) کے تقریباً 70 فیصد کی نمائندگی کرتی ہے، نے اپنے اراکین کو آبنائے باب المندب سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔ ٹینکر ٹریفک میں یہ بڑی رکاوٹ ممکنہ طور پر تیل کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گی، اسی وقت جب سعودی آرامکو کمپنی نے 1 فروری سے ایشیائی صارفین کے لیے فی بیرل تیل پر $2 ڈسکاؤنٹ کا اعلان کیا!

ان تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ یمنیوں کو بحری جہازوں پر میزائل اور ڈرون داغنے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میزائل حملے کی محض دھمکی ہی بحیرہ احمر میں جہاز رانی کے میدان میں صیہونی حکومت کے مفادات کو متاثر کرنے کے لیے کافی تھی۔ ایک ایسا اہم سمندری روٹ کہ جس کے ذریعے دنیا کی تجارت کا 12% ہوتا ہے اور کنٹینر شپنگ کے لئے یہ اعداد و شمار 30% کی متاثر کن تعداد کو ظاہر کرتا ہے۔ جس سے زیادہ نقصان اسرائیل کو ہی پہنچے گا۔

لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ درحقیقت یہ امریکی-برطانوی اتحاد ہی ہے جس نے کشیدگی کو مزید تیز کر دیا ہے اور اسے اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں اب نہ صرف تجارتی بحری جہاز بلکہ آئل ٹینکرز بھی بحیرہ احمر کو عبور کرنے کا خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *