[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک – رویا فریدونی: جنرل قاسم سلیمانی کو حشد الشعبی کے کمانڈر ابو مہدی المہندس اور ان دو مزاحمتی کمانڈروں کے متعدد ساتھیوں کے ساتھ 3 جنوری 2020 کی صبح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے براہ راست حکم پر بغداد ائیر پورٹ کے قریب امریکی ڈرون حملہ کرکے شہید کر دیا گیا۔ دہشت گردی کی اس کارروائی پر بین الاقوامی ردعمل کا سیلاب امڈ آیا۔
شہید سلیمانی کو مزاحمتی محاذ کے سینئر کمانڈر اور عالمی استکباری نظام کے خلاف جنگ کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ شہید جنرل سلیمانی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مختلف محاذوں میں جو کردار ادا کیا اس نے انہیں محور مقاومت کی امیدوں کا مرکز بنا دیا تھا۔ عراق اور شام میں داعش کے ظہور کے بعد، شہید سلیمانی قدس فورس کے کمانڈر کے طور پر ان علاقوں میں موجود رہ کرعوامی قوتوں کو منظم کر کے اس گروہ کے خلاف لڑے او اسے شکست دی۔
شہید سلیمانی نے صرف حماس، حشد الشعبی، انصار اللہ اور خاص طور پر حزب اللہ جیسی تحریکوں کی مدد پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ بہ نفس نفیس مشرق سے مغرب، شمال سے جنوب تک ہر محاذ پر صہیونیت کے خلاف لڑتے رہے اورعلاقائی اورعالمی ترقی، سلامتی، انصاف اور امن کے قیام میں اپنا موثر کردار ادا کیا۔
ان دونوں بلند پایہ شخصیات کی شہادت کی چوتھی برسی کے موقع پر مہر نیوز ایجنسی نے ترکی کے معروف قانون دان “امین گونیش” کے ساتھ گفتگو کی ہے جسے قارئین کے لئے ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
مہر نیوز: آپ مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے میں شہید سلیمانی کے کردار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
مسئلہ فلسطین امت (مسلمہ) کے ذہن میں ہمیشہ زندہ ہے۔ انگریزوں کے فلسطین پر قبضے کے بعد سے مسلمانوں نے سیاسی اور مسلحانہ جدوجہد کے ذریعے فلسطین کے کاز کو زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر ہم نے اپنے ملک میں مسئلہ فلسطین کی اہمیت مرحوم نجم الدین اربکان سے سیکھی۔ ہمیں مرحوم اربکان کے الفاظ یاد رکھنے چاہئیں جنہوں نے کہا تھا: “اسرائیل صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔” مرحوم اربکان نے ساری زندگی اسرائیل کو خطے سے نکال باہر کرنے کے لئے کوشش کی۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی اس میدان میں پہلا قدم اٹھایا ہے۔ امام خمینی (رح) کے شاندار قیام کی بدولت ایران میں اسلام ایک ریاست بن گیا۔ امام راحل کا پہلا اقدام اسرائیل کو بطور ملک تسلیم نہ کرنا تھا اور تہران میں اسرائیلی سفارت خانہ فلسطینی سفارت خانہ بن گیا۔ اس وقت ہم نے محسوس کیا کہ ان کے دل ہم سے زیادہ فلسطین اور بیت المقدس کے لیے دھڑکتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے بیت المقدس کو بچانے کے لیے ایک خصوصی فوجی بریگیڈ تشکیل دی۔ یوں ہمارے مرحوم پروفیسر اربکان کی خواہش اسلامی جمہوریہ نے پوری کردی۔ سپاہ قدس اسرائیل سے اسی زبان میں بات کرنے کے لیے بنائی گئی ہے جسے وہ سمجھتا ہے اور شہید قاسم سلیمانی اس فورس کے کمانڈر تھے۔ اس لیے وہ ان تمام مسلمانوں کے سپہ سالار تھے جوبیت المقدس کے بارے میں فکر مند ہیں۔
اس عظیم شہید نے دیگر مزاحمتی گروہوں بالخصوص حماس اور اسلامی جہاد کے ساتھ مل کر اپنا فرض ادا کیا جو درحقیقت صہیونیوں سے برسرپیکار رہنا ہے۔ ان کی کوششوں سے بیت المقدس ہر روز ایک قدم آزادی کے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ 7 اکتوبر کے آپریشن (طوفان الاقصیٰ) میں “شہید قدس ” کی کوششوں سے کوئی انکار نہیں کرتا۔ آج پوری دنیا ان سرنگوں کے بارے میں بات کر رہی ہے جن کی تعمیر کا منصوبہ شہید قاسم سلیمانی نے بنایا تھا اور اسی طرح ان میزائلوں کے بارے میں بات کر رہی جنہیں بنانے میں شہید پیش پیش تھے۔
مقاومت کے محدود ہتھیار لیکن لامحدود ایمان، اسرائیل کی لامحدود ہتھیاروں کی طاقت پر برتری رکھتے ہیں۔ شہید سلیمانی صرف فلسطین میں ہی نہیں بلکہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے تمام محاذوں پر نظر آتے ہیں۔
مہر نیوز؛ شہید سلیمانی کو “شہید قدس ” کیوں کہا جاتا ہے؟
شہید سلیمانی قدس فورس کے کمانڈر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ اگر انہیں شہید قدس نہ کہا جائے تو پھر کسے کہا جائے؟
انہیں شہید کرنے والے اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ قدس کی آزادی پر اکتفا نہیں کریں گے۔ اسے نہ صرف اسرائیل کے لیے خطرہ سمجھا جاتا تھا بلکہ تمام سامراجی طاقتوں بالخصوص شیطان بزرگ امریکہ جو ہمارے خطے کے وسائل کا استحصال کر رہے ہیں، کے لیے خطرہ سمجھا جاتا تھا ۔ لہٰذا مناسب ہے کہ انہیں نہ صرف شہید قدس بلکہ شہید امت سمجھا جائے۔
اسلامی جغرافیے کو سامراج کے قبضے اور تسلط سے بچانے کے لیے پہلے بیت المقدس کی آزادی کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ اسی وجہ سے شہید سلیمانی نے ہمیشہ بیت المقدس کا راستہ کھلا رکھنے کی کوشش کی اور عراق، شام اور لبنان کے راستے غزہ کی مدد کی۔ اسی لئے وہ ایک دن غزہ میں تھے تو دوسرے دن وہ گولان کی پہاڑیوں پر تو کسی دن بیروت، دمشق یا بغداد میں موجود ہوتھے تھے۔
شہید سلیمانی ایک سفارت کار ہونے کے ساتھ جنرل اور ایک عام سپاہی بھی تھے۔ شہید قدس کو معلوم تھا کہ شیطان بزرگ مریکہ ہی اصلی جارح ہے، اسی لیے انہوں نے امریکہ کی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالی اور مقابلہ کیا۔
مہر نیوز؛ آپ اسرائیل کی علاقائی پوزیشن کو کمزور کرنے میں شہید سلیمانی کے کردار کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
شہید قاسم سلیمانی نے نہ صرف اسرائیل کی علاقائی پوزیشن کو کمزور کیا بلکہ صیہونی حکومت کے تمام منصوبوں کو بھی ناکام بنا دیا۔ اسرائیل نے 1948 سے 1980 تک فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کیا اور ان میں سے لاکھوں بے گھر ہوئے۔ اسرائیل نے اپنا علاقہ تقریباً 5% سے بڑھا کر 95% کر دیا اور اپنی نظریں پڑوسی ممالک کی سرزمین پر جما دیں۔ اس نے جنوبی لبنان پر قبضہ کیا اور بیروت آیا۔ وہ قدم بہ قدم اپنے دعویٰ کردہ مقصد اور سرزمین موعود کی طرف بڑھنے لگے۔ اس نے بیروت، دمشق اور جنوب مشرقی ترکی کو اپنی سرزمین میں شامل کرنے کے لیے ان علاقوں میں نسلی اور فرقہ وارانہ اختلافات پیدا کیے اور اپنے حریفوں کو اندر سے کمزور اور تقسیم کیا۔
جب اسرائیل ایسے منصوبوں میں مصروف تھا، ایران کو اندر سے عوامی مجاہدین خلق تنظیم (منافقین) اور باہر سے صدام کے حملے کا سامنا تھا۔
اس صورتحال میں بھی اسلامی حکومت مسجد اقصیٰ کی آزادی سے غافل نہیں تھی اور غاصب صیہونی حکومت کو شکست دینے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ 11 نومبر 1982 کو شہید احمد قصیر کی شہادت پسندانہ کاروائی اور 23 اکتوبر 1983 کو بیروت کی بیرکوں پر بمباری نے اسرائیل، امریکہ اور فرانس کو چونکا دیا۔ امریکہ اور فرانس نے جلد ہی لبنان چھوڑ دیا اور اسرائیل کو جنوبی لبنان سے انخلاء پر مجبور ہونا پڑا۔ اسرائیلی فوج جولائی 2006 کی جنگ میں اپنی بظاہر ناقابل تسخیر طاقت کھو بیٹھی، جس میں شہید قاسم سلیمانی ذاتی طور پر موجود تھے۔ جولائی کی جنگ کے بعد اسرائیل کے ترقیاتی منصوبوں نے مقبوضہ علاقوں کو تحفظ فراہم کیا۔ اس حکومت کو زندہ رہنے کے لیے دیواروں اور آہنی گنبد جیسے دفاعی نظام کی ضرورت تھی۔ تاہم، ” طوفان الاقصی “، جس کے انفراسٹرکچرکی تکنیکی، منصوبہ بندی اور تیاری کے مراحل میں شہید سلیمانی کی کوششوں اور مدد کا بار بار حوالہ دیا گیا ہے، نے ثابت کیا کہ اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا اور قدس فورس اپنے فائنل اہداف کے قریب پہنچ چکی ہے۔