[]
مہر خبررساں ایجنسی،بین الاقوامی ڈیسک؛ جنرل سلیمانی کے کردار اور فلسطینیوں کے لیے ان کی خصوصی مدد کے بارے میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای فرماتے ہیں کہ فلسطین کے حوالے سے امریکیوں کا منصوبہ یہ تھا کہ فلسطینیوں کو کمزور حالت میں رکھیں تاکہ وہ لڑنے کی ہمت نہ کریں۔
شہید سلیمانی نے فلسطینیوں کے ہاتھ بھردیے۔ اور ایسا کام کیا کہ غزہ کا چھوٹا سا علاقہ اپنے تمام دعوؤں کے ساتھ صیہونی حکومت کے سامنے کھڑا ہے 48 گھنٹوں کے اندر صہیونی جنگ بندی پر مجبور ہوگئے یہ حاج قاسم کا کارنامہ تھا انہوں نے فلسطینیوں کو اپنے پاوں پر کھڑا ہونے اور مزاحمت کرنے کے قابل بنایا۔ فلسطینی بھائی بار بار اس چیز کا اعتراف کرتے ہیں البتہ میں خود بھی اس بات کا علم رکھتا تھا۔
کیا چند سال ہتھیار فراہم کرنے اور فوجی تربیت دینے کی وجہ سے ہی شہید سلیمانی شہید قدس بنے تھے؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ اس کے لئے حالات کا گہری نظر سے جائزہ لینا ہوگا۔
جنرل قاسم سلیمانی دفاعی اور فوجی حکمت عملی میں ثانی نہیں رکھتے تھے۔ جنگی حکمت عملی دینے کے ساتھ انہوں نے بنفس نفیس محاذوں پر شرکت کو یقینی بنایا۔ انہوں نے تین مختلف اور اہم جنگی میدانوں میں حاضری دی؛ دفاع مقدس، ملک کے اندر مسلح افراد اور منشیات کے سمگلروں کے خلاف جنگ اور آخری مرحلے میں ملکی سرحدوں سے باہر دشمنوں سے جنگ۔ ان میں سے ان کا سب سے بڑا کارنامہ مقاومت کو تقویت دینا اور تربیت دینا تھا۔
انہوں نے عالم اسلام میں مقاومت کا نظریہ ایجاد کیا۔ مختلف مکاتب فکر اور قبائل کی موجودگی میں انہوں نے لوگوں کو مقاومت کے محور پر جمع کیا اور مسئلہ فلسطین اور مسجد اقصی کی اہمیت سے آگاہ کیا۔
بعض لوگ لبنان، شام، عراق، یمن اور فلسطین کی مقاومتی تنظیموں کو ایران کی ذیلی تنظیمیں قرار دیتے ہیں لیکن اگر گذشتہ چار دہائیوں کے دوران شہید سلیمانی کے کردار کو دیکھیں تو واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے ان تنظیموں کو خودمختار بنایا۔
طوفان الاقصی اس کی بہترین مثال ہے کہ مقاومت اب اپنے طور پر منصوبہ بندی، حکمت عملی اور میدان جنگ میں وارد ہونے کی قابل ہوچکی ہے۔ طوفان الاقصی فلسطینیوں کی اندرونی منصوبہ بندی کے تحت وجود میں آیا۔ اگرچہ مقاومتی تنظیموں کا محدود کردار ہوسکتا ہے لیکن مرکزی اور اصلی فیصلہ فلسطینیوں کا اپنا ہے۔
شہید سلیمانی نے مقاومت کو فیصلہ سازی کی طاقت عطا کی جس کے بل بوتے پر غزہ میں حماس نے طوفان الاقصی جیسی حیران کن کاروائی کی۔
خطے کی مقاومتی تنظیموں کے درمیان مختلف موضوعات پر جزئی اختلافات رہے ہیں تاہم شہید سلیمانی نے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مقاومتی سرگرمیوں کو بہترین انداز میں آگے بڑھایا۔
انہوں نے تہران اور مقاومتی محاذ کے درمیان پل کا کردار ادا کیا اور ملکی اور علاقائی مفاد کا تحفظ کیا اس کی بہترین مثال عراق میں عوامی رضاکار فورس کی تشکیل ہے۔ عوامی رضاکار فورس کا کردار حزب اللہ اور انصاراللہ جیسی تنظیموں سے مکمل مختلف ہے۔ عوامی رضاکار فورس یا حشد الشعبی کو عراقی مرجعیت کی نگرانی میں وہاں کے ملکی مفادات کو مدنظر رکھ کر وجود میں لایا گیا ہے۔
شہید سلیمانی ایک اور خصوصیت علاقے کے عوام کی خواہشات اور تمایلات کے مطابق کام کرنا تھا اس کی بہترین فلسطین میں ان کی فعالیت ہے۔ شہید سلیمانی کہتے تھے کہ اگر کوئی فلسطین میں لوگوں کو شیعہ بنانے کی خواہش رکھتا ہے تو یہ ہماری پالیسی کے خلاف ہے اور میں ایسے شخص کے ساتھ کام کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوں۔
تہران میں حماس کے دفتر کے سربراہ خالد قدومی کہتے ہیں کہ رہبر معظم کے گھر میں حماس کے وفد کے ساتھ شہید سلیمانی سے بھی ملاقات ہوئی تو ان کا مقصد علاقائی سطح پر مقاومتی محاذ کے ہر گروہ کے لئے ایک حکمت عملی مرتب کرنا تھا۔ وہ ہر ملک اور قوم سے تعلق رکھنے والوں کے لئے الگ الگ ذمہ داری دیتے تھے کہ ان کا اسرائیل کے مقابلے میں کیا وظیفہ ہے؟
حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ کے مطابق شہید سلیمانی ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک مکتب تھے جو اسلام اور اخلاص سے بھرپور تھا۔ اس مکتب کو سمجھنے کے لئے دقت اور غور و فکر کی ضرورت ہے۔ رہبر معظم نے بھی اس حوالے سے فرمایا تھا کہ جہاں اخلاص ہوگا اللہ اپنے مخلص بندوں کو برکت عطا کرتا ہے۔ برکت الہی کی وجہ سے ترقی اور پیشرفت ہوتی ہے اور اس کے اثرات سے سب مستفید ہوتے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد کی موجودگی اور اشک و غم اس بات کی دلیل ہے جس سے لوگوں کے اندر انقلابی روح تازہ دم ہوجاتی ہے۔ ہمیں ان کی قدر کرنا چاہئے۔ ہمیں شہید حاج قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس کو ایک فرد کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ وہ ایک مکتب اور راہ ہیں جہاں سے درس حاصل کیا جاتا ہے۔ اس وقت اس واقعے کی اہمیت مزید واضح ہوجاتی ہے۔