[]
طلاقِ تفویض ایک شرعی اور قانونی حقیقت ہے ۔ اس معاہدہ کے تحت ہوئی علاحدگی کو عدالت اور قانون دونوں کی حمایت حاصل ہے۔ شادی سے پہلے یا بعد معاہدہ کیا جاسکتا ہے جو ایک بانڈ پیپر یا سادے کاغذ پر تحریر کیا جاسکتا ہے جس پر زورجین کے دستخظ اور گواہوں کے دستخط ضروری ہیں۔
شادی کے بعد اگر لڑکی یہ محسوس کرلے کہ اس کے ساتھ انسانی سلوک نہیں ہورہا ہے اور اسے اس کا حق نہیں مل رہا ہے۔ اس پر ظلم و ستم روا رکھا گیا ہے اور طرح طرح کی پابندیاں عائد کی جارہی ہوں‘ اسے ماں باپ سے تک ملنے نہیں دیا جارہا ہے۔ اس کا شوہر گالی گلوج کرتا ہے ۔ شراب بھی پیتا ہے ‘ اس کو نفقہ سے تک محروم رکھا جارہا ہے۔ اس کے تعلقات باہر کی عورتوں سے ہیں ۔ اس کا مہر نہیں دیا گیا۔ اس کو ماں باپ سے ملنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے اور اس میں کئی ایسی بری عادتیں ہیں جو اصولِ شرعِ اسلام کے خلاف ہوں ایسی صورت میں اس طرز کا معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
اس معاہدہ میں اگر شوہر سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہو جو اصولِ شرع اسلام کے خلاف ہو تو بیوی کو حق حاصل ہوگا اور یہ حق ازروائے معاہدۂ تفویض طلاق ہوگا کہ وہ خود کو طلاق دے لے اور اس طرح عدت کی مدت کے اختتام پر وہ دوسری شادی کرسکتی ہے۔ گویا وہ اختیار جو شوہر کو حاصل ہے کہ جب بھی وہ چاہے بیوی کو طلاق دے کر اپنی زوجیت سے خارج کردے‘ وہی اختیارات شوہر کی جانب سے ازروئے معاہدہ بیوی کو حاصل ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی ایسی صورت میں جس میں شوہر نے اصولِ شرعِ اسلام کوئی کیا ہو۔
شرائط ایسی ہوں کہ انہیں ناجائز قرارنہ دیا جائے۔ مثلاً بیوی یہ مطالبہ نہیں کرسکتی کہ شوہر اپنی داڑھی منڈھوالے یا ماں باپ سے علاحدہ ہوجائے۔ یہ معاہدہ ترک صوم و صلواۃ کی صورت میں جائز ہوگا کیوں کہ نماز اور روزہ فرائض ہیں۔ اگر شوہر شراب نوشی کرے تو بھی عورت کو حق حاصل ہوگا کہ وہ خود کو طلاق دے کر نکاح کے بندھن سے آزاد ہوجائے۔ اگر مناسب دیکھ بھال نہیں کی جارہی ہے ‘ مارا پیٹا جارہا ہے ۔
ماں باپ کو گالیاں دی جارہی ہیں‘ کھانے کپڑے سے تک محروم رکھا جارہا ہے ‘ مہر کی رقم ادا نہیں کی جارہی ہے ۔ ماں باپ سے ملنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے تو ایسی صورتوں میں طلاقِ تفویض کے اختیارات کو استعمال میں لاتے ہوئے عورت خود کو طلاق دے سکتی ہے۔ اس ضمن میں کوئی شک ہو تو شہر کی سب سے بڑی دینی درسگاہ سے فتویٰ حاصل کیا جاسکتا ہے اور ایسے استفسار کا جواب ہاں میں ہوگا۔
نکاح ایک معاہدہ ہے ۔ اسے عموماً عقدِ نکاح کہتے ہیں یعنی نکاح کرنے کا معاہدہ ۔ نکاح کے بعد شوہر بیوی ایک مقدس بندھن میں بندھ دیئے جاتے ہیں۔ ساری دنیا کسی نہ کسی معاہدہ کے تحت چل رہی ہے ۔ اس اصول کے کچھ لوگ مخالف بھی ہیں اور ان کی رائے کچھ اس طرح ہے ۔
بھائی یہ کیا بات ہوئی؟ نکاح کے وقت ہی طلاق کی باتیں۔ نادانو! جس چیز کی اجازت شریعت نے دی ہے اس پر تنقید کیوں ہورہی ہے۔ کیا آپ شریعت اسلامی پر تنقید کریں گے جبکہ طلاقِ تفویض شرعی قوانین کا ایک حصہ ہے۔ اسلام کے ہر حکم میں ایک حکمت پوشیدہ ہے۔
ہماری شریعت لکیر کی فقیر نہیں۔ اس قانون کی اہمیت کو سمجھنا چاہتے ہوں تو اس مظلومہ سے پوچھیئے جو خلع کیلئے تڑپ رہی ہے اور اس کے بدنصیب والدین اپنی قسمت پر رو رہے ہیں اور ظالم شوہر اپنی منکوحہ کے جائز مطالبہ کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
مجبور ہوکر مظلوم خاتون دفعہ498-A تعزیرات ہند DVCاور دفعہ125 ضابطۂ فوجداری کا سہارا لے گی۔ شوہر کو مجبور کرے گی کہ لاکھوں روپیہ بطورِ ہرجانہ ادا کرے اور ساتھ ہی نفقہ کی ایک بڑی رقم ماہانہ اساس پر ادا کرے۔ شوہر مجبور ہوکر رہ جائے گا لیکن اس عمل میں بہت وقت لگے گا۔
یہ اصول صرف ایک حفاظتی اقدام ہے۔ ہر معاہدہ میں ایک شق ایسی ہوتی ہے جس میں معاہدہ پر عدم عمل آوری پر نقصانات کا ازالہ کرنے کا عنصر شامل رہتا ہے۔ چونکہ نکاح بھی ایک عقد یعنی معاہدہ ہے تو اس میں اگر طلاقِ تفویض کی شق رکھی جائے تو کونسا پہاڑ ٹوٹ کر گرے گا یا آسمانی آفت آئے گی۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی عورت یہ نہیں چاہے گی کہ اس کے ماتھے پر مطلقہ کا ٹیکہ لگے۔ وہ چاہے گی کہ اس کی زندگی امن و چین سے گزرے اور وہ اپنے شوہر کے ظلم سے محفوظ رہے۔ غیر اقوام کے جاہل لوگ اصولِ طلاق پر تنقیدیں کرتے ہیں کہ یہ کیا بات ہے کہ جب تک شوہر نہ چھوڑے عورت دوسری شادی نہیں کرسکتی۔
یہ نادان نہیں جانتے کہ ہمارے قانون میں ایسی بھی بات ہے جو عورت کی آزادی کی ضمانت دیتی ہے لیکن یہ ہمارے معاشرہ کی خرابی ہے کہ ہم اسلام کے زریں اصولوں کی قدر نہیں کرتے۔ دوسرے معنوں میں اس جائز معاہدہ کو ایک انشورنس اسکیم سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جو اس بات کی گیارنٹی دیتا ہے کہ اگر معاہدہ ہو تو طلاق کی گیارنٹی ہے۔ اس انشورنس پالیسی میں کوئی Premium نہیں۔