[]
نیویارک: دنیا بھر میں دہشت پھیلانے والی کورونا وبا سے لاکھوں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں تاہم اب اموات کے حوالے سے ہولناک انکشاف سامنے آیا ہے۔
سال 2020 اور 21 دنیا کے لئے خطرناک ترین سال ثابت ہوئے جب کورونا نامی ہلاکت خیز عالمی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس دوران دنیا بھر میں لاکھوں انسانی اموات ہوئیں اور چند ایک ممالک کو چھوڑ کر دنیا کے بیشتر ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں انسان موت کا شکار ہوئے۔
کورونا سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں امریکا کا بھی شمار ہوتا ہے جہاں بی بی سی کی گزشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق 10 لاکھ سے زائد اموات ہوئیں۔
اب گوکہ اس عالمی ہلاکت خیز وبا سے دنیا کو کوئی خطرہ نہیں لیکن کئی سال بعد نیویارک ٹائمز نے اس وبا کے دوران مرنے والوں سے متعلق ہولناک انکشاف کیا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مراکز کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ کووڈ 19 سے ہونے والی امریکی اموات میں سے تقریبا ایک تہائی دراصل کسی اور وجہ سے ہوئی ہیں۔
امریکی اخبار میں اس حوالے سے شائع مضمون میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران اس وبا سے مرنے والوں کی سرکاری تعداد ایک مبالغہ آرائی ہے کیونکہ اس میں کچھ ایسے لوگ شامل ہیں جن کی موت کے وقت وائرس دنیا میں موجود ضرورتھا تاہم یہ ان کی موت کی بنیادی وجہ نہیں تھی۔
اخبار کے مطابق اعداد و شمار اور جرنل کلینیکل انفیکشن ڈیزیز میں ایک مطالعہ اس دعوے کی تائید کرتا ہے کہ سرکاری حالیہ کوویڈ اموات کا تقریباً ایک تہائی مبالغہ آرائی ہے اور اس حوالے سے گمراہ کن اعداد و شمار جاری کئے گئے تھے۔
اس حوالے سے ایک اور ادارے ‘اے پوزیٹیو کووڈ مائل اسٹون’ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکہ میں ہر وجہ سے ہونے والی اموات کورونا کی وبائی بیماری سے پہلے کی بنیاد پر واپس آ گئی ہیں۔ آؤٹ لیٹ کے مطابق وبائی مرض کے بدترین دور کے دوران زیادہ تر موت کی وجوہات کورونا وائرس ہی درج کی گئیں۔
یہ بات نیویارک ٹائمز، دیگر ممتاز امریکی خبر رساں اداروں، حقائق کی جانچ کرنے والوں اور خود امریکی صدر کے چیف میڈیکل ایڈوائزر انتھونی فوچی کے برسوں کے دعویٰ سے متصادم ہے کہ سرکاری ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں کوئی بھی سوال سوشل میڈیا پر بے بنیاد افواہوں اور ڈس انفارمیشن کے ذریعے پیدا ہونے والا “سازشی نظریہ” تھا۔