[]
وہ کہہ رہا ہے مٹا کے رکھ دوں گا ایک دن میں نسل تیری
ہے اس کی عادت ڈرا رہا ہے، ہے میری فطرت ڈرا نہیں ہوں
راحت اندوری مرحوم کا یہ شعر غیور، حوصلہ مند، بہادر، باحمیت اور جنگجو فلسطینیوں اور ظالم، جابر، سفاک، غاصب اسرائیلی حکمرانوں کی سوچ و فکر کی مکمل تشریح ہے۔ گزشتہ سو برسوں سے فلسطینی اپنے ساتھ ہوئی تاریخی ناانصافی کے خلاف برسر پیکار ہیں اور صیہونی پوری سفاکی کے ساتھ ان کی نسل کشی کر رہے ہیں۔ 1917 میں برطانوی وزیر خارجہ لارڈ بالفورس کے فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کی حمایت کے اعلان کے ساتھ ہی صیہونی دہشت گرد تنظیم ہگانہ نے فلسطین میں قتل عام کا بازار گرم کر دیا تھا۔ وہ کئی محاذوں پر سازش کر رہے تھے اور برطانوی-امریکی سامراج کی اخلاقی، سیاسی، فوجی اور معاشی طاقت ان کے ساتھ تھی۔ دوسری جانب فلسطینی اپنے وطن، اپنے گھر، اپنی زمین، اپنے زیتون کے باغات وغیرہ کی حفاظت کے لیے اکیلے تھے۔ خلافت عثمانیہ ختم ہو چکی تھی، عرب سرزمین کے حصّے بکھر چکے تھے اور برطانوی-امریکی سامراج کے تابعدار حکمراں عربوں پر حکومت کر رہے تھے۔ تاریخ کے کسی دور میں بزدل اور بے حمیت نہ رہنے والے عرب حکمراں بزدلی، عیاشی، بے حمیتی کا نمونہ بنے ہوئے تھے جبکہ عرب عوام ان استبدادی حکمرانوں کے مظالم کے آگے مجبور تھے۔ وہ کڑھ کڑھ کے قبلہ اول پر صیہونیوں کا قبضہ دیکھ رہے تھے۔ فلسطینیوں پر ہو رہے مظالم سے ان کے دلوں میں آگ لگی ہوئی تھی۔ وہ فلسطین کے جہاد میں شامل ہونا چاہتے تھے مگر اپنے استبدادی حکمرانوں کے سامنے مجبور تھے۔