[]
سوال:شادی کے بعد سسرالی رشتہ داروں میں جیٹھ، جٹھانی، دیور، دیورانی نندیں، بھاوج کے درمیان ایک دوسرے کو نام لے کر پکارا جائے گا یا عزت کی جائے گی، اس مسئلہ کے شرعی حکم سے آگاہ فرمائیں،
مثلاََ حقیقی بھائی عمر میں بہن سے بڑے ہیں تو چھوٹی بہن اپنے بڑے بھائی کو احترام واکرام کے الفاظ سے پکارے گی؛
لیکن اگر وہی بڑے بھائی کی بیوی عمر میں نندوں سے چھوٹی ہو تو کیا بھائی کا اکرام ملحوظ رکھتے ہوئے بھاوج کو بھی احترام کے الفاظ سے پکارنا چاہئے، شرعی اعتبار سے ادب کا تقاضا کیا ہے ؟ واضح فرمائیں، جزاکم اللہ۔(کریم الدین، سنتوش نگر)
جواب: شریعت میں دونوں کو اہمیت دی گئی ہے، عمر کے اعتبار سے بڑے ہونے کو بھی، اسی معنیٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس نے بڑے کا احترام نہیں کیا، وہ ہم میں سے نہیں ہے ‘‘ من لم یؤقر کبیرنا فلیس منا (شعب الایمان، حدیث نمبر: ۱۰۴۷۴)
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفقاء کے درمیان اس کو ملحوظ رکھا کرتے تھے، دوسری طرف آپ نے رشتوں کے احترام کا بھی خصوصی خیال رکھا اور اس کی تلقین فرمائی، حضرت عباسؓ کی عمر آپ سے کچھ ہی زیادہ تھی؛ لیکن پھر بھی آپ ان کے ساتھ احترام کا معاملہ فرماتے تھے،
ایک نوجوان اپنے والد سے آگے چل رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان کے پیچھے چلا کرو (المعجم الاوسط، حدیث نمبر: ۶۸۵۷)
ایک معاملہ میں دو بھائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، چھوٹے بھائی اپنا معاملہ پیش کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کبِّر‘‘ یعنی بڑے کو بات کہنے کا موقع دو (بخاری، حدیث نمبر: ۶۱۴۲)
لہٰذا اگر دو خواتین میں سے ایک عمر میں بڑی ہوں اور دوسری رشتہ کے اعتبار سے بڑی شمار کی جاتی ہوں ،تو دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ادب واحترام کا معاملہ رکھیں، بھاوج نند کے ساتھ اس بناء پر کہ وہ عمر میں بڑی ہیں، اور نند بھاوج کے ساتھ اس بناء پر کہ بعض روایتوں میں بڑے بھائی کو والد کے درجہ میں رکھا ہے،
بڑے بھائی کو والد کا درجہ دینے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس کی بیوی کو ماں کی طرح احترام دینا چاہئے، یہ تو شرعی نقطۂ نظر سے کہا گیا ہے؛ لیکن ایسے مسائل میں عرف ورواج کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے،
جس علاقہ میں جس طرح کا رواج ہو، اس کے مطابق عمل کرنے کی گنجائش ہے؛ کیوں کہ ایسے معاملات میں رواج سے ہٹ کر جو عمل کیا جاتا ہے، وہ دل آزاری کا سبب بنتا ہے، اور رواج کے دائرہ میں جو عمل ہوتا ہے، اس سے شکایت پیدا نہیں ہوتی۔
٭٭٭