[]
مہر خبررساں ایجنسی،بین الاقوامی ڈیسک؛ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف کاروائیوں کے لئے امریکہ کی جانب سے صہیونی حکومت کی مدد کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ہے۔
1948 سے اب تک امریکہ سالانہ 8۔3 ارب ڈالر اسرائیل کو دفاعی امداد کرتا آیا ہے لیکن غزہ کی جنگ کے بعد اسرائیل کی طرف امداد کا سیلاب آرہا ہے جس سے غزہ کے خلاف جنگ میں امریکہ عملی طور پر شریک ہوگیا ہے۔
7 اکتوبر کو طوفان الاقصی شروع ہونے کے بعد اسرائیل نے غزہ میں شہری آبادی اور غیر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ بن گوریان ائیرپورٹ اور امریکہ کے درمیان براہ راست پروازیں چلنے لگیں جن میں فوجی امداد اور اسلحے لائے جانے لگے۔
جنگ کے ابتدائی روز ہی امریکہ نے صہیونی حکومت کے لئے 14 ارب ڈالر کی خطیر امدادی رقم منظور کرلی جس میں سے 4 ارب ڈالر سے زائد کا آئرن ڈوم اور اور ایک ارب ڈالر سے فضائی دفاع کے دیگر آلات فراہم کئے گئے۔
امریکہ سے ملنے والے 14 ارب ڈالر غزہ کے خلاف جنگ میں اسرائیلی بجٹ کا ایک تہائی فیصد ہے۔ اسرائیل کو غزہ کے خلاف جنگ میں 50 ارب ڈالر کی بجٹ کی ضرورت ہے۔ اس طرح امریکہ نے صہیونی حکومت کی بڑی دفاعی مدد کی ہے۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق امریکہ نے حماس کے خلاف استعمال کرنے کے لئے اسرائیلی فوج کو لاکھوں کی تعداد میں گولے فراہم کئے ہیں۔ طوفان الاقصی کے فورا بعد 15 ہزار بم اور 75 ہزار گولے فراہم کئے گئے ہیں۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔
بموں اور گولہ بارود کے علاوہ امریکہ نے درجنوں جنگی جہاز صہیونی فورسز کی مدد کے لئے خطے میں بھیجے ہیں۔ جنگ کے ابتدائی 23 دنوں کے دوران مجموعی طور پر 50 سے زائد امریکی فوجی طیارے اہلکاروں کو لے کر مغربی ایشیا جاچکے ہیں۔
علاوہ ازین 50 سی17 فوجی طیارے مشرق وسطی سفر کرچکے ہیں گویا یہ طیارے صہیونی حکومت کی مدد کے لئے پوری طرح استعمال کئے جارہے ہیں۔
امریکہ نے بحری راستے سے بھی صہیونی حکومت کی مدد کی ہے۔ وائٹ ہاوس نے سب سے بڑے بحری بیڑے جیرالڈ فورڈ کو 90 طیاروں کے ساتھ خطے میں بھیجا ہے جبکہ اسرائیل کو دفاع کرنے کے لئے 60 طیاروں کے ساتھ آئزن ہاور بیڑا بھی بحیرہ روم میں تعیینات ہے۔
امریکہ کے اتحادی کی حیثیت سے یورپی ممالک بھی اسرائیل کی مدد کرنے میں پیچھے نہیں ہیں
طوفان الاقصی کے فورا مغربی ممالک کے حکمرانوں نے اسرائیل کا دورہ کرکے صہیونی حکومت کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
برطانوی وزیراعظم رشی سونک، جرمنی کے چانسلر اولا شولتز، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بورل نے صہیونی حکومت کی حمایت کے لئے اسرائیل کا سفر کیا۔
برطانوی وزیردفاع نے اگرچہ ریاکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ کی جنگ کے لئے اسلحہ فراہم کرنے کی نسبت محدودیت کا اظہار کیا تاہم ذرائع کے مطابق اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی کے لئے کھلی اجازت دی گئی۔
اوپن لائسنس کے تحت ایک کمپنی کو متعدد مقامات پر برآمد کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور برآمد کنندہ لائسنس میں بیان کردہ وقت کے اندر بار بار کارگو فروخت کر سکتا ہے۔ اس میں معیاری لائسنس کے برعکس برطانوی برآمد کنندگان وہ سامان برآمد کر سکتے ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ نے دفاعی اور مالی امداد کے علاوہ اسرائیل کو اطلاعاتی مدد بھی فراہم کی ہے۔ گذشتہ مہینے کے دوران قبرص میں واقع برطانوی فوجی اڈے سے امریکی جاسوس طیارے لبنان اور غزہ کی فضاوں میں پرواز کرکے اطلاعات کو صہیونی حکومت کے حوالے کرتے رہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق قبرص میں موجود برطانوی اڈا غزہ پر بمباری کے لئے صہیونی حکومت کے بین الاقوامی مرکز کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ برطانیہ بحیرہ روم میں کئی جنگی جہازوں کو اسرائیل کی مدد کے لئے بھیج چکا ہے۔ برطانوی کشتیوں میں ایک پر مقاومت نے میزائل حملہ بھی کیا ہے۔
یورپی ممالک میں سے جرمنی نے بھی غزہ میں جنگ کی آگ بھڑکانے کے لئے صہیونی حکومت کی مدد کی ہے۔
رائٹرز کے مطابق جرمنی سے اسرائیل کو اسلحہ کی درامد کی شرح میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے گویا حماس کے خلاف حملے اب جرمنی کی ترجیحات میں شامل ہیں۔
رائٹرز نے مزید کہا ہے کہ جرمنی نے اسرائیل کو 32 کروڑ ڈالر کی دفاعی امداد کی منظوری دی ہے جو کہ گذشتہ سال کی نسبت 10 فیصد زیادہ ہے۔
دراین اثناء اسٹاک ہوم میں قائم بین الاقوامی پیس سینٹر کی رپورٹ کے مطابق جرمنی نے گذشتہ سالوں میں ٹینکوں کے ہزاروں موٹر اسرائیل کو فراہم کئے ہیں جبکہ برلین جیسے شہر میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں پر بھی پابندی عائد تھی۔
علاوہ ازین جدید نوعیت کے ڈرون طیاروں کی فراہمی بھی جرمنی کی طرف سے اسرائیل کو امداد کی فراہمی میں شامل ہے۔
صہیونی حکومت کی امداد کی لمبی فہرست ہے
دنیا کی آںکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے یورپی یونین کی جانب سے غزہ کے متاثرین کو ڈھائی کروڑ ڈالر کی امداد دی گئی ہے جو کہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔
امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کے آغاز کے ساتھ ہی سیاسی حمایت کے علاوہ ہر قسم کی فوجی امداد بھیج کر صیہونی حکومت کو شکست کی دلدل سے بچانے کی کوشش کی ہے۔ ایک ایسا اقدام جس نے ان ممالک کے سربراہان کے نام غزہ کے 15 ہزار سے زائد شہداء کے قاتلوں کی فہرست میں شامل کیے ہیں جن میں 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔
امریکی حکومت صیہونی حکومت کو ہر سال 3.8 بلین ڈالر فراہم کرتی ہے اور اب اس نے غزہ جنگ میں حکومت کی حمایت کے لیے 14.3 بلین ڈالر کا امدادی پیکج مختص کیا ہے جبکہ خود 1.7 ٹریلین ڈالر کے بجٹ خسارے سے دوچار ہے۔ ایسی صورتحال میں ماہرین کے مطابق ایک کروڑ ڈالر امریکی ٹیکس دہندگان کی جیبوں سے لے کر صیہونی حکومت میں داخل کیے جاتے ہیں۔ ایک ایسا مسئلہ جس کی وجہ سے امریکی شہریوں کی آوازیں پہلے سے کہیں زیادہ سنی گئیں۔
البتہ چنانچہ سابق صدر جمی کارٹر نے کہا تھا کہ ہر امریکی حکومت کو ہر حال میں اسرئیل کی مدد کرنا ہوگی۔