[]
مہر خبررساں ایجنسی – بین الاقوامی رپورٹ: قطر کے الجزیرہ نیٹ ورک کے زیر انتظام “میڈیا اینڈ وار” کے عنوان سے پانچ روزہ اجلاس ترکی کے شہر استنبول میں منعقد ہو رہا ہے۔ اس خصوصی اجلاس میں خطے کے مختلف ذرائع ابلاغ کے تقریباً 100 صحافی اور ماہرین شریک ہیں۔ یہ ملاقاتیں مکالمے پر مبنی سوالات و جوابات کی شکل میں منعقد ہوتی ہیں جس میں مہر نیوز اہجنسی کے صحافی بھی شریک ہیں۔
یہ اجلاس قانونی اور میڈیا ماہرین کی موجودگی کے ساتھ ایک ورکشاپ کی صورت میں منعقد ہو رہا ہے۔
پہلے اور دوسرے دن اردن کی ممتاز قانون دان “ہالہ عاہد” جنگی جرائم، نسل کشی اور اجتماعی قتل عام کے نقاط اور بین الاقوامی فورمز میں قانونی طور پر ان کی پیروی کا جائزہ لیں گی۔
اس موضوع کو “صحافی اور بین الاقوامی انسان ہمدردی کا قانون؛ جنگی جرائم کی دستاویزی ” کے عنوان سے استنبول کے شرق ثقافتی مرکز میں پیش کیا گیا۔
تاہم اس اجلاس کے تیسرے دن غزہ سے تعلق رکھنے والے فلسطینی رپورٹر “محمد الزانین” نے “اوپن میڈیا سورسز” (OSINT) کے عنوان سے اپنے مطالب پیش کئے۔ وہ بنیادی طور پر “سیناڈ” نیوز ایجنسی (SANAD) کے رکن ہیں جو حال ہی میں الجزیرہ کی نگرانی میں آیا ہے۔
سیناڈ نیوز ایجنسی کی اہم سرگرمی ذرائع کی تلاش اور میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں خاص طور پر مشرق وسطیٰ کی خبروں پر توجہ دینے کے ساتھ ان کی حقیقت پر تحقیق کرنے سے متعلق ہے۔
اس میڈیا آرگنائزیشن کے صحافیوں اور محققین نے حالیہ دنوں میں طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز اور صیہونی فوج کی وحشیانہ جارحیت کے دوران صیہونی حکومت کے بیانات کے جھوٹ کو ثابت کرنے میں کامیاب تحقیقی سرگرمیاں انجام دی ہیں۔ ان میں سے اہم ترین تحقیق غزہ کی پٹی میں المعمدانی ہسپتال پر بمباری کے حوالے سے صیہونیوں کے جھوٹ کو بے نقاب کرنا ہے۔
جھوٹی اور سچی رپورٹوں کے درمیان جنگ میں شدت
اس نشست کے آغاز میں محمد الزعانین نے تاکید کی کہ موجودہ حالات میں میڈیا وار کا میدان بالخصوص طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ کو منتقل ہو گیا ہے جب کہ ہم ان دنوں اس پر بھی توجہ دے رہے ہیں لیکن زیادہ تر غزہ جنگ سے متعلق صیہونی رجیم کے بیانئے کی رپورٹوں اور میڈیا پروپیگنڈوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے بعد حالیہ ہفتوں میں صہیونی میڈیا کی طرف سے شائع ہونے والی اطلاعات اور خبریں بہت زیادہ جھوٹ اور فریب پر مبنی ہیں۔ اس سلسلے میں، ہم نے صیہونی حکومت کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے پر اپنی کوششیں مرکوز کیں، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو جنگ کے آغاز سے المعمدانی ہسپتال کے سانحے تک رہا اور ہنوز جاری ہے۔
الجزیرہ کے نمائندے نے زور دیا کہ میڈیا کے کھلے ذرائع استعمال کرنے کے لیے، آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ معلومات تک رسائی صرف آپ ہی نہیں ہیں، بلکہ جیسا کہ کہاوت ہے، ایک دوسرے کے اوپر بہت سے ہاتھ ہیں، اور بہت سے لوگوں کو معلومات تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔ وہی معلومات جن تک آپ بیک وقت رسائی حاصل کر رہے ہیں دوسروں کی دسترس میں بھی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس میدان میں، آپ کو واضح طور پر اپنے اہداف کا تعین کرنا چاہیے اور ایک مخصوص روڈ میپ کی بنیاد پر اپنی فعالیت جاری رکھنا چاہیے۔”
الزعانین نے میڈیا کے کھلے ذرائع کے ڈیٹا کو ہدف کے مطابق استعمال کرنے کے لیے جمع شدہ معلومات کے آرکائیو کی تیاری کو بہت ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ OSINT کے استعمال سے صحافیوں اور محققین کو واقعات کی سچائی تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
واقعات کے صحیح مقام کو جاننے میں خبر کا اہم کردار
انہوں نے دستیاب معلومات اور تصاویر کی بنیاد پر واقعے کے جغرافیائی محل وقوع کے بارے میں تحقیق کو بہت اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ واقعے کے صحیح محل وقوع کا پتہ لگانے سے صحافیوں کو واقعات کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے، جس کے لئے یہ کام کیا جا سکتا ہے جیسے ویب میں پیش کیے گئے مختلف نقشے اور دیگر دستیاب ٹولز کا استعمال وغیرہ۔
فلسطینی صحافی اور محقق نے سیٹلائٹ تصاویر کے استعمال کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ سیٹلائٹ معلومات تک رسائی آپ کو جدید اور درست معلومات کے حصول میں مدد دے سکتی ہے۔ اور یہ تصاویر اس شعبے میں سرگرم خصوصی کمپنیوں کی طرف سے فراہم کی گئی ہیں، جیسے کہ امریکن پلینٹ، میکسر اور سینٹینیل حب جو کہ ایک یورپی کمپنی ہے۔
جنگ کے منظر کو سمجھنے کے لیے سیٹلائٹ تصاویر کا تجزیہ
انہوں نے تاکید کی کہ غزہ کی حالیہ جنگ میں سیٹلائٹ تصاویر کے تجزیے سے بہت سے صحافیوں کو جنگی واقعات کو سمجھنے میں مدد ملی، مثال کے طور پر غزہ کی پٹی میں زمینی لڑائی کے دوران سیٹلائٹ تصاویر کے تجزیے نے ہمیں غزہ کی پٹی کے مختلف حصوں میں صیہونی ٹینکوں کی آہستہ پیش قدمی سے آگاہ ہونے میں مدد دی۔
الزعانین نے مزید کہا کہ نیز آٹھ نومبر کو غزہ کی پٹی سے حاصل ہونے والی سیٹلائٹ تصاویر کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ زمینی لڑائی کے دوران صیہونی حکومت کے ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
انہوں نے تاکید کی کہ سیٹلائٹ تصاویر کا تجزیہ کرنے کے لیے وقت کے بعض مقامات پر ان کا موازنہ کرنے کا طریقہ استعمال کرنا چاہیے، جو بالآخر جنگ کے منظر میں پیدا ہونے والے اختلافات کو عملی طور پر واضح کرے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسری جانب 24 نومبر کو سیٹلائٹ تصاویر کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی میں ایک بڑی خندق کھود رہی ہے تاکہ اس پٹی کے جنوب کو مکمل طور پر اس پٹی کے شمال سے الگ کیا جا سکے جو اس وقت غزہ کے مشرقی علاقوں سے مغربی حصوں کی طرف تیزی سے کھودی جارہی ہے۔
اسی طرح 30 نومبر کو حاصل ہونے والی ان تصاویر کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ صہیونی فوج نے غزہ کے شمال مغرب میں بیت لاہیا کے علاقے میں کئی فوجی خیمے لگا رکھے ہیں۔
خبریں کے مواد کی حقیقت کا یقین کیسے کریں؟
محمد الزعانین نے مزید کھلے ذرائع ابلاغ کے میدان میں معلومات کی صداقت کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا: شائع شدہ مواد کی حقیقت تک رسائی کے لیے آپ کو سرچ انجنوں میں اہم کلیدی الفاظ کا استعمال کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ شائع شدہ تصاویر یا کلپس کی حقیقت کے بارے میں اطمینان حاصل کرنے کے لیے آپ کو معیار کا بغور جائزہ لیتے ہوئے ان تصاویر کے بارے میں شائع شدہ تبصروں کو پڑھنا چاہیے۔ واقعات کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے سافٹ ویئر ٹولز کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مثال کے طور پر اگر آپ کے پاس کسی خاص واقعہ کی کم از کم دو مختلف زاویوں سے کوئی تصویر یا ویڈیو ہوں تو تقریباً یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ حقیقی ہے اور میدان میں پیش آیا اور درست ہے۔
کیس اسٹڈی کی جانچ کرنا؛ المعمدانی ہسپتال پر بمباری
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ کس طرح صیہونی حکومت کے المعمدانی ہسپتال پر بمباری کے حوالے سے جھوٹ کو بے نقاب کیا مزید کہا کہ المعمدانی ہسپتال پر ممکنہ بمباری کے بارے میں صیہونیوں کا جھوٹا اور فریب پر مبنی بیانیہ اس حقیقت پر مرکوز تھا کہ یہ ہسپتال مزاحمت کی جانب سے مقبوضہ علاقوں پر ناکام میزائل حملے کے نتیجے میں تباہ ہو گیا تھا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس واقعے کے فوراً بعد، ہم نے کارروائی کی اور غزہ کی فضاء سے الجزیرہ کے کیمروں کی تصاویر کے ساتھ ساتھ دیگر موجودہ اور دستیاب تصاویر کا تجزیہ کیا۔” اس معاملے میں سچائی تلاش کرنے کی کوشش 14 گھنٹے جاری رہی اور آخر کار ہم نے تل ابیب کے جنوب میں صیہونی حکومت کے فکسڈ کیمروں کے ساتھ الجزیرہ کی لمحہ بہ لمحہ تصاویر جمع کر کے اس حقیقت کا ادراک کیا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ صیہونی حکومت نے جس میزائل کا دعویٰ کیا تھا وہ غزہ سے المعمدنی ہسپتال کی طرف داغا گیا تھا وہ تصویر جاری ہونے کے چند ہی لمحوں بعد، صیہونی حکومت کی فوج کے میزائل ڈیفنس سسٹم نے اسے تباہ کر دیا تھا اور المعمدنی ہسپتال پر بمباری کے وقت غزہ سے مقبوضہ علاقوں کی طرف کوئی راکٹ فائر نہیں کیا گیا اور نہ ہی پھینکا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ تمام واقعات چار پانچ منٹ میں رونما ہوئے اور بالآخر مزاحمتی راکٹ کی تباہی کے چند لمحوں بعد غزہ صیہونی حکومت کے راکٹ حملوں کے دوران المعمدنی ہسپتال کو نشانہ بنایا گیا جس کی تصاویر بھی دستیاب ہیں۔