[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر اور مستقل مندوب نے تہران کے خلاف امریکی بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران نے کبھی بھی شام یا دیگر مقامات پر امریکی فوجی دستوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
امیر سعید ایرانی نے مشرق وسطیٰ اور شام کی صورتحال کے حوالے سے سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ اس اجلاس میں ایران کے خلاف امریکہ کے بے بنیاد الزامات کو دوٹوک الفاظ میں مسترد کیا جاتا “یہ بے بنیاد الزامات امریکہ کی جانب سے شامی عرب جمہوریہ میں بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹانے کی دانستہ کوشش کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔”
ایرانی مندوب نے تاکید کی کہ اسلامی جمہوریہ ایران کبھی بھی شام یا کسی اور جگہ پر امریکی فوجی دستوں کے خلاف کسی کارروائی یا حملے میں ملوث نہیں رہا ہے، ایران نے ہمیشہ خطے میں امن و سلامتی کو فروغ دینے کے اپنے وعدوں کی پاسداری کی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کے مستقل مندوب کے خطاب کا متن درج ذیل ہے:
جناب صدر
سیشن کے آغاز میں، میں چین کو اس ماہ کونسل کی صدارت سنبھالنے پر مبارکباد دینا چاہوں گا۔
میں بریفنگ دینے والے احباب کو ان کی اپ ڈیٹس اور معلوماتی بریفنگ کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
جناب صدر
جیسا کہ آج کی بریفنگ میں اشارہ کیا گیا ہے، شام میں انسانی بحران بدستور سنگین ہے اور شامی عوام شدید معاشی چیلنجوں کا شکار ہیں۔
ضرورت مندوں کو ضروری امداد پہنچانے کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں اور اس کے انسانی ہمدردی کے شراکت داروں کے باوجود، غیر قانونی یکطرفہ پابندیوں کے مسلسل اثرات خاص طور پر امریکہ کی طرف سے غیر قانونی طور پر لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے خواتین اور بچوں سمیت شامی عوام پر غیر متناسب اور سنگین بوجھ پڑ گیا ہے ۔
ایک قابل ذکر تشویش شام کے انسانی امداد کے لیے موجودہ فنڈز کی ناکافی ہونا ہے، جو کہ اصل ضروریات سے بہت کم ہے۔ یہ شدید قلت اقوام متحدہ کی ضرورت مندوں کو ضروری امداد فراہم کرنے کی صلاحیت میں شدید رکاوٹ ہے۔
شام میں انسانی امداد اور تعمیر نو کے اقدامات کو شامی حکومت پر سیاسی دباؤ ڈالنے کے اوزار کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ بات یقینی بنانا ضروری ہے کہ شام کے تمام علاقوں میں انسانی امداد کی غیر جانبدارانہ اور غیر سیاسی ترسیل زندگیوں کے تحفظ کے لیے ایک اہم اقدام ہے۔
ایران 10 نومبر (2023) کو شامی حکومت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہے جس میں اقوام متحدہ اور اس کی خصوصی ایجنسیوں کو “باب السلمہ” اور “الراعی” کراسنگ کو مزید تین ماہ کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
ایران کراس لائن میکانزم کے ذریعے امداد کی منتقلی کی اہمیت پر زور دیتا ہے، جسے شامی حکومت کی مکمل توثیق حاصل ہے اور ایک پائیدار اور تعمیری نقطہ نظر کی نمائندگی کرتا ہے جو شام میں انسانی صورتحال کو نمایاں طور پر بہتر بنا سکتا ہے۔
جناب صدر
سلامتی کونسل کی جانب سے فیصلہ کن ردعمل کی کمی نے اسرائیلی حکومت کو شام کی سرزمین پر جارحیت جاری رکھنے کا حوصلہ فراہم کیا ہے۔
غزہ کے لوگوں کے خلاف اپنے مظالم کے علاوہ، اسرائیلی حکومت شام کی سرزمین کے اندر دہشت گردی اور جارحیت کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور جان بوجھ کر شہریوں اور اہم انفراسٹرکچر کو نشانہ بنا رہی ہے۔
ایران اسرائیلی حکومت کی دہشت گردی کی گھناؤنی کارروائیوں کی شدید مذمت کرتا ہے، بالخصوص 26 نومبر کو دمشق کے شہری ہوائی اڈے پر تازہ ترین فضائی حملے کہ جس میں ہوائی اڈے کی ضروری تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا اور اس کے امدادی آپریشن میں نمایاں خلل پڑا۔ ہم سلامتی کونسل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ شام کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی اسرائیلی خلاف ورزی کی شدید مذمت کرے۔
جناب صدر
شام میں امریکی فوجی دستوں کی غیر قانونی موجودگی اور اس کا مسلسل قبضہ ملک میں نا امنی کا بنیادی ذریعہ ہے اور اس نے شام اور خطے میں دہشت گرد تنظیموں کی پرورش کے لیے زرخیز زمین اور مواقع فراہم کئے ہیں۔
امریکہ شام میں دہشت گردی سے لڑنے کا دعویٰ کرتا ہے جب کہ حقیقت میں شام میں اس کے غیر قانونی اقدامات، دہشت گرد تنظیموں کو خطے میں امریکہ اور اسرائیلی حکومت کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استثنیٰ اور حفاظتی ڈھال فراہم کرتے ہیں۔
مزید برآں غزہ کی صورت حال کی وجہ سے امریکہ شام میں کشیدگی کے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کرنے کے باوجود اس صورت حال کا غلط استعمال کرتے ہوئے کشیدگی کو بڑھانے اور شام کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
صدر محترم
ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ شام کے بحران کا لازمی حل سفارتی اور سیاسی طریقوں سے تلاش کیا جانا چاہیے۔
اس تناظر میں ہم سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ایک موثر طریقہ کار کے طور پر آئینی کمیٹی کے اجلاسوں کو دوبارہ شروع کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ اس کمیٹی کا کام جاری رکھنا بہت ضروری ہے اور اس میں اقوام متحدہ کو معاون کے طور پہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ تاہم سارا عمل شام کی قیادت اور نگرانی میں انجام پائے۔
جناب صدر
ایران نے جمہوری شام کے صدر کی طرف سے جاری کردہ حالیہ قانون سازی آرڈنینس کا خیر مقدم کیا ہے جو کہ ایک سال سے بھی کم عرصے میں دوسرا عام معافی کا فرمان ہے۔
ایران شامی مہاجرین کی وطن واپسی کی حمایت کرتا ہے اور شامی پناہ گزینوں کو درپیش متعدد چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اہم بنیادی ڈھانچے کی تشکیل کی ضرورت پر بھی زور دیتا ہے۔
اقوام متحدہ، خاص طور پر ہائی کمشنر برائے مہاجرین (UNHCR) اس کوشش میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ہم اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے شامی حکومت اور UNHCR کے درمیان شمولیت اور تعمیری بات چیت کا خیرمقدم اور حمایت کرتے ہیں۔
میں شامی عوام کی مشکلات کو کم کرنے کے مقصد سے امداد جاری رکھنے کے لیے ایران کے غیر متزلزل عزم کو دوہرانا چاہتا ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شام کے بحران کے نتائج سے نمٹنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر اور حقیقی سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔
اس عزم میں اسرائیل کی منظم اور مسلسل جارحیت کو ختم کرنا، شامی سرزمین پر قبضے کا خاتمہ، شامی علاقوں سے غیر ملکی افواج کی غیر قانونی موجودگی کا خاتمہ، یکطرفہ جبر کے اقدامات کو فوری اور غیر مشروط طور پر اٹھانا اور شام کے زیر انتظام سیاسی عمل کی فعال حمایت کرنا شامل ہے۔
اور آخر میں جناب صدر، اس چیمبر میں میرے ملک کے خلاف امریکہ کے بے بنیاد الزامات جو کہ برطانیہ کے نمائندے کی طرف سے غیر ذمہ داری کے ساتھ دہرائے گئے، کو یکسر مسترد کیا جاتا ہے۔ یہ بے بنیاد الزامات امریکہ کی جانب سے شامی عرب جمہوریہ میں بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی جاری سنگین خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹانے کی دانستہ کوشش کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔
میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کبھی بھی شام یا کسی اور جگہ امریکی فوجی دستوں کے خلاف کسی کارروائی یا حملے میں ملوث نہیں رہا ہے۔ ایران نے خطے میں امن و سلامتی کو فروغ دینے کے اپنے وعدوں کو مسلسل برقرار رکھا ہے۔
امریکہ کو شام میں اپنے غیر قانونی اقدامات کو روکنا چاہیے، اس کا غیر قانونی قبضہ ختم ہوجا نا چاہیے، اور سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں سمیت اپنی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کی تعمیل کرنی چاہیے، جس کے تحت تمام رکن ممالک کو شام کی قومی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت اور امن کو برقرار رکھنے اور احترام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے اقدامات علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے فروغ کے لیے نہایت اہم ہیں۔
میں برطانیہ کے نمائندے کی طرف سے لگائے گئے بے بنیاد الزامات کو بھی سختی سے مسترد کرتا ہوں۔
آپ کا شکریہ۔