[]
سید الیاس باشاہ
حماس یعنی ”حرکۃ المزاحمۃ الاسلامیۃ“ نے امت مسلمہ کے عزت و وقار کی لاج رکھ لی جب ان لوگوں نے 7/ اکتوبر 2023 ء کی صبح ”آپریشن طوفان الاقصی“ کے نام سے غاصب و ظالم اسرائیل پر انتہائی خفیہ ومنظم طریقہ پر ہر طرف سے حملہ کرکے جس معرکہ کا آغاز کیا، اس کی حالیہ تاریخ میں نظیر ملنا مشکل ہے۔ اس معرکہ میں ”تنظیم اسلامی جہاد“ اور”القدس بریگیڈ“ کا حماس کو مکمل تعاون حاصل ہے۔ ان نوجوانوں کو، ”اکیسویں صدی میں امت مسلمہ کے لیے ہراول دستہ کہنا بیجا نہ ہوگا۔ اس محدود مگر مضبوط و نتیجہ خیز کارروائی پر ظالم دشمن کا جواب جہاں، ہلاکت خیز، دلوں کو دہلادینے والا رہا، جس نے دنیا بھر کے انسانوں کو ہلا کر دیا ہے۔ چند اہل ایمان جوابی کارروائی کی شدت و تباہی خصوصاً انسانی جانوں کے اتلاف پر تڑپ اٹھے اور انہیں حماس والوں کی دور اندیشی پر انگلی اٹھاتے دیکھا جارہا ہے۔
دراصل جذبہ ایمانی سے سرشار، پابند دین و شرع متین، اس طبقہ نے عالم اسلام کے تیسرے سب سے مقدس مقام اور قبلہ اول ”مسجد اقصی“ کی صیانت وحفاظت کے عزم کے ساتھ اس قدم کو اکیلے ہی اٹھایا جس کی گواہی پچھلے مہینوں بلکہ سالوں میں غاصب و قابض طاقت کے ذریعہ مسلسل کئے جارہے اقدامات اور اعلانات اور ان پر تیزی سے عمل کرنا ہے۔ باطل کی ان حرکات کے سب پر واضح ہونے کے باوجود پڑوسی برادر عرب ممالک بشمول اسلامی کانفرنس کے جملہ 57 ملکوں کے حکمرانوں نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ الا ماشاء اللہ۔
واضح رہے، حماس نے 15 جنوری 2006ء کے فلسطین کے انتخابات میں غزہ میں واضح اکثریت حاصل کرکے حکومت تشکیل دی تھی۔ غاصب اسرائیلی حکمراں پورے علاقے پر قبضے اور اپنے دیرینہ ناپاک عزائم کے تکملہ کے لیے بے چین تھے۔ سو انہوں نے منتخب حکومت کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ ستائیسویں ڈسمبر 2008 ء کو معمولی جھڑپوں کے بعد صیہونی فوج نے غزہ پر چڑھائی کردی۔ یہ فوجی کارروائی 22 دن تک جاری رہی جس میں 1400 فلسطینی شہید ہوئے اور 13 اسرائیلی کام آئے۔ چودہ نومبر 2012ء کے دن حماس کے ملٹری چیف احمد جابری کو شہید کر دیا جس کے نتیجے میں آٹھ روز لڑائی چھڑی رہی۔ تین صہیونی نوجوانون کے اغوا اور قتل کے واقعہ پر سات دن تک لڑائی جاری رہی۔ نتیجتاً 2,100 فلسطینی شہید اور 73 اسرائیلی کام میں آئے۔ یہ واقعہ جولائی/اگست 2014ء کے دوران پیش آیا۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی مزدوروں کے لیے ملک میں داخلہ کو روکنے کی غرض سے سرحد پر دیوار کی تعمیر کے خلاف مظاہرے کرنے والے نہتے فلسطینیوں پر فوج نے گولیاں داغ دیں جس سے 170 مظاہرین شہید ہوئے۔ یہ مظاہرے کئی مہینوں تک جاری رہے اور پھر یہ قتل و غارت گری وقفہ وقفہ سے جاری رہی۔ نومبر 2018ء کی بارہ تاریخ کے دن اسپیشل فورسیز نے میزایلوں کے ذریعہ الاقصی ٹی وی چینل کے دفتر سمیت 7 عمارتوں کو زمین بوس کردیا گیا۔۔۔اسی سال اکٹوبر کی ستائیسویں تاریخ، زائد از دو گھنٹے اسرائیلی بمبار طیاروں نے انڈونیشیا کی جانب سے تعمیر کردہ ہسپتال پر بمباری کی۔ اسی طرح اگسٹ 2019 ء کے دوران سعید مشال فاؤنڈیشن فار کلچر اینڈ سائینس کی عمارت پربمباری کی گئی جس میں 20 افراد زخمی ہوگئے۔ اس سے قبل چودہ جولائی کے روز بھی بم برسائے گئے۔ مئی 2021ء میں رمضان کے مبارک مہینے کے دوران حرم شریف پرقبضہ جما لیا اور عبادت کے لیے آنے والوں کو مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا جس میں سیکڑوں روزہ دار مرد، خواتین زخمی ہوئے۔ حرم شریف میں محدود تعداد میں صرف عمر رسیدہ افراد کو ذلت آمیز چیکنگ کے بعد داخلہ دیا گیا۔ حماس نے قبضہ برخاست کرنے کا مطالبہ کیا اور پھر میزائلوں سے فوج پر حملہ کر دیا۔ یہ دوطرفہ لڑائی 11 دن تک جاری رہی جس میں 250 فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیاجبکہ 13 اسرائیلی مارے گئے۔ اسی دوران کمسن فلسطینیوں کی ”آپریشن لا اینڈ آرڈر“ کے نام سے گرفتاری کرکے انتہائی سفاکی و بربریت سے تفتیش کے نام پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اگسٹ 2022ء میں اسلامی جہاد کمانڈر پر قاتلانہ حملہ کے نتیجہ جم کر لڑائی ہوئی جس میں بشمول 13 کمسن، 44 فلسطینی شہید ہوئے۔ ماہ جنوری 2023ء میں اسرائیلی فوج نے پناہ گزینوں کے کیمپ میں دراندازی کرکے سات مجاہدین اور دو افراد کو شہید کردیا۔ اس کے جواب میں اسلامی جہاد کے جانبازوں نے یہودی آبادی پر دو راکٹ داغے۔ جواب میں فوج نے کیمپ پر بمباری کی۔ اس طرح یہ تشدد و جوابی کارروائی کاسلسلہ و خون خرابہ جاری رہا۔
اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ 17 مئی2017ء تک فلسطینیوں پر حملہ کرکے آہستہ آہستہ 550 گاؤں اور دیہات یکے بعد دیگرے حکومت کی جانب سے مسمار کرکے نئے صہیونی آبادکاروں کے حوالے کردیے گئے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی قوانین عرب نسل اور یہودی آبادکاروں کے لیے مختلف ہیں اور ان کے لیے حکومت کی طرف سے نہ صرف خصوصی حقوق و سہولتیں بلکہ حفاظت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ اسی دور ان ادھر ”گریٹر اسرائیل پلان“ کے تحت صہیونی حاکم ٹولہ اور ان کے دیرینہ مغربی رفقاء نے چپکے چپکے سے عرب حکمرانوں کو اپنا ہم نوا بنانا شروع کردیا۔ قدیم تاریخی مقامات ”جوڈیا اور سماریا“ کو مستقل طور پر اپنی ریاست میں ضم کر لینے کا اعلان کیا۔ جس پر کسی نے بھی کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔ ویسے کئی فلسطینی آبادیوں کو نوآباکاروں سے بزور، تشدد و فوج کی مدد سے خالی کرواکر قبضہ کر لینا معمول ہوگیا۔ گویا مقامی لوگوں کو پنے مقام پر جینے کا حق نہیں ہوگا۔ پڑوسی عرب ملکوں کو اور ان کے رہنماؤوں کو ڈرانا، دھمکانا عرصہ سے اس ملک کی سرکاری پالیسی کاحصہ رہا ہے۔ بطور ثبوت درج ذیل دو وا قعات کا ذکر کیا جاتا ہے۔۔
ویٹیرن ٹوڈے کے5/ اگسٹ 2020ء کے شمارے میں سینئر ایڈیٹر گورڈن ڈف نے مضمون میں لکھا کہ اسرائیل نے ایک دن قبل5/ اگست کو لبنان میں بیروت کی بندرگاہ کے قریب عرصہ دراز سے کھڑے ہوئے امونیم نائٹریٹ کے کنٹینرز لدے جہاز اور قریب میں واقع ایک گودام کو نشانہ بناکر 6 کلو ٹن کا نیوکلیئر میزائیل انتہائی اونچائی سے اڑ رہے امریکی جیٹ کے ذریعہ گرایاہے۔ یہ خبر اسرائل کے ٹائمز آف اسرائیل میں بھی شائع ہوئی۔ قیامت خیز دھماکے ہوئے۔ سارا لبنان لرز اٹھا،سارے مڈل ایسٹ بشمول ترکی، قبرص میں آواز سنی گئی۔ دھماکے میں 218 مارے گئے اور 7000 زخمی ہوئے جبکہ مچی تباہی سے 3 لاکھ کی آبادی بے گھر ہوگئی۔ شروع میں امریکی صدر اور عہدیداروں نے اس کی تو ثیق کی مگر بعد میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کی۔ اس کی رپورٹ چند سال بعد آئی، کچھ گرفتار کئے گئے اور رہا بھی کردیے گئے۔
واشنگٹن پوسٹ اور مڈل ایسٹ مونیٹرکی اطلاع کے مطابق جون 2021ء میں اردن کے ملک عبداللہ(دوم) بن شاہ حسین کی حکومت کو گرانے کی سازش رچی گئی۔ اردن کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اردن کے سابق وزیر مالیات و رایل کورٹ کے سابق ہیڈ باسیم عوض اللہ سازش پر عمل کرنے کے چند ہی روز قبل گرفتار کیا گیا۔۔۔ انہی دنوں ملک عبد اللہ کے رضاعی برادر پرنس حمزہ بھی حراست میں لے لیے گئے۔(مڈل ایسٹ آئی)۔۔ عوض اللہ کبھی محمدبن سلمان کے اڈوائزر رہ چکے ہیں۔ ان کی رہائی وصفائی کے لیے سعودی شہزادہ سلمان نے 5 اپریل کو ایک وفد بھیجاجس سے ملاقات سے عبد اللہ نے صاف انکار کردیا۔ ایک اطلاع یہ بھی آئی کہ ان کو ختم کردینے کی تیاری جاری تھی۔جس میں سعودیہ کے پرنس بشمول اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو، ان کے عہدہ دار شریک تھے۔ اس کی وجہ ظاہر تھی۔ اردن کے شاہ کے سامنے کوشنر کی مڈل ایسٹ کے مسئلہ کے حل کے لیے دور رس نتائج والی تجویز رکھی گئی تھی کہ بیت المقدس و مسجد اقصی کی تولیت سے وہ دست بردار ہوجائیں تاکہ اس کے ساتھ حرمین شریفین کو جوڑ کر عیسائیوں کے ویٹیکن کی طرح ایک عالمی انتظامیہ بناکر اس کو محمد بن سلمان کے زیر نگرانی کردیں۔ شاہ نے سخت مذمتی الفاظ اس تجویز کو رد کردیا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ اس کو دبئی کے حکمران کی بھی تائید ملی تھی۔ سارے فلسطینیوں کو وہاں سے ہٹاکر سینائی ریگستان میں کالونی بناکر بسا دیا جائے۔ اسی دوران خلیجی ملکوں پر امریکی صدر اور ان کے دامادکوشنر کا تجارتی تعلقات کے بدلے میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کی تجویز رکھی گئی۔ ا س کا نام ”ڈیل آف سنچری“ (صدی کا معاہدہ) رکھاگیا۔ کوشنر اینڈکمپنی کی پوری کوشش یہ تھی کہ اسلام کا ذکرنہ آئے۔ لہٰذا اس کوشش کو ”عربائزیشن ““کا نام دیا گیا۔ پڑوس کی سبھی عرب ریاستوں پر زبردست دباؤ بنایا گیا تاکہ تجارت، ٹکنالوجی اور انٹلی جنس کے اسرائیل کے ساتھ انفرادی سطح پر معاہدہ کریں۔ باہمی معاہدہ کی تجویز کے ساتھ یہ باور کرانے کوشش کی گئی کہ سابقہ طے شدہ دو ریاستی فارمولا (فلسطین اور اسرائیل) کے تحت فلسطین کی ریاست کا قیام جلد ہی عمل میں لایا جائے گا۔ جبکہ اسرائیلی حکمرانوں نے ایسے کسی ارادہ سے ہمیشہ انکار کیا ہے۔
کوشنر نے عرب حکمرانوں کو یہ باور کرایا کہ اسرائیل اور عرب بھلے دو علاحدہ کلچر رکھتے ہوں مگر دونوں کے (دادا) نبی ابراہیم، ایک ہی ہیں۔ لہٰذا حضرت ابراہیم کے نام سے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرلو۔ اسرائیل ایک ترقی یافتہ قوم ہے۔ تمہیں خوب فائدہ ہوگا۔ پھر کیا تھا، فوراً امارات نے 15 ستمبر 2020ء کو اسرائیل سے امن معاہدہ کرلیا۔ جب کہ بحرین کے حکمران نے ”امن کے ذریعہ خوشحالی“ کے عنوان کے تحت اسرائیل سے انہی دنوں دوستی کا معاہدہ کیا۔ سوڈان نے سعودی عرب کے زبردست دباؤ اور بیرونی قرضوں کے سعودیہ کی جانب سے ادا کردیے جانے کے بعد اکتوبر 2020ء میں معاہدہ پر دستخط کر دیے۔ مراقش نے بھی امریکہ کی جانب سے مغربی صحارا کے متنازعہ علاقہ پر اس کے حق کو تسلیم کیے جانے کے بدلے میں، کچھ ایسے ہی حالات میں معاہدہ پر دستخط کر دیے۔ گویا کہیں کوئی اصول نہ تھابلکہ مجبوریوں اور بلیک میل کا دور دورہ تھا۔ صرف حماس نے جم کر اس کی مخالفت کی اور ان معاہدوں کو فلسطینی مفاد و انصاف کے ساتھ دغا، دھوکا اور صہیونی طاقت کے ساتھ واضح ملی بھگت قرار دیا، جس سے حماس کے مخالفین سخت ناراض ہوگئے۔
اعلی ترین سطح پر یہ سب ہورہا تھا۔ حماس نے خود اعتمادی کے ساتھ اپنے طور پر ترقی کے آگے کے پلان بھی وضع کرنے شروع کردیے۔ کئی سالوں سے بشمول سعودی عرب، امارات وغیرہ نے فلسطین کے لیے اپنی سالانہ امداد کو گھٹادیا تھا۔ جنگجؤوں کی تعداد کو جو قبل ازیں پچیس ہزار تھی، 2023ء میں بڑھاکر چالیس ہزار کردی گئی۔ راکٹوں کی تعداد 14000 سے زیادہ اور رینج 8 کلو میٹر سے 250 کردی گئی۔غزہ کے سپوت ڈاکٹر جمال الزبدہ نے امریکی ادارہ ناسا اورمشہور یونیورسٹیوں کی اعلی ملازمت کو خیرباد کہہ کر دایرۃ التصنیع العسکری کی 1994ء میں بنیاد ڈالی اور حیران کن ٹکنالوجی کے ذریعہ انتہائی نشانہ پر اور طویل فاصلہ تک وار کرنے والے میزائل بنائے۔۔ یہ سب مقامی طور پر تیار کی گئیں۔ دن رات مسلسل محنت کے ذریعہ پانچ سو کلو میٹر مسافت تک کی غزہ بھر میں زیر زمیں سرنگیں بنائیں جن کے ذریعہ اعلیٰ پیمانہ پر کاروبار سمیت افراد کی نقل و حرکت ہوتی ہے۔ امسال غزہ کا سالانہ بجٹ 300 ملین امریکی ڈالر ہے۔۔ ایران نے 100 ملین فراہم کیے جبکہ ترکی، سعودی، امارات، سوڈان اور الجیریا بھی عطیہ دہندگان میں شامل ہیں۔ حماس کی اپنی تجارت بھی ہے جبکہ بیرون میں اس کے اراکین کی سرمایہ کاری ایک بلین ڈالر تک ہے اور جس پر ڈیویڈینڈ آتا ہے۔ حماس والوں نے انتہائی جانفشانی سے عرصہ دراز سے زیر زمین سرنگوں کی تعمیر کر رکھی ہے جو 500 کلو میٹر تک پھیلی ہوئی ہیں، جن کی گہرائی کہیں کہیں 260 قدم تک ہے۔ چونکہ دشمن قابض طاقت نے سرحد پار سے تجارت، لین دین پر سخت کنٹرول کیا ہوا تھا، یہی سرنگیں ان کے لیے سب کچھ تھیں۔ امریکہ نے اپنے جدید ترین اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل میزائیل لاکر جھونکے ہیں تاکہ ان سرنگوں کا پتہ لگایا جاسکے۔ مسلسل کوشش کے باوجود ابھی تک انہیں کچھ ہاتھ نہ لگا ہے۔
کون کہتا ہے فلسطینی انسان نہیں؟ کیا انہیں زندہ رہنے کا حق نہیں؟ جبکہ اقوام متحدہ کی قرار داد 37/43 مؤرخہ3 ڈسمبر 1983ء کے مطابق حکمراں طبقہ کے خلاف اپنی قوم کی آزادی، یکجہتی اور حقوق کے لیے جد و جہد کرنا جائز قرار دیا گیا ہے۔ غزہ کے شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
ان جیالوں کوہم ذاتی طور پر نہیں جانتے مگر کلمہ لا الہ الا اللہ کی بنیا دپر وہ ہمارے بھائی ہیں۔ ہم ان کے لیے دعاء تو کرہی سکتے ہیں۔