[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ غزہ کے خلاف جنگ میں امریکی کردار واضح ہونے کے بعد بین الاقوامی امور پر تحقیقاتی و مطالعاتی ادارہ ابرار معاصر تہران کی جانب سے بین الاقوامی تعلقات کے محققین کے ساتھ ایک نشست میں خطے کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں مختلف پہلووں سے بحث کی گئی۔
مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے تہران یونیورسٹی کے سیاسی علوم کے استاد ڈاکٹر ابراہیم متقی نے کہا کہ خطے میں اسرائیل کی حیثیت کے بارے میں دو نظریات موجود ہیں۔
بعض لوگوں کے مطابق اسرائیل امریکی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے اسی وجہ اپنے اثر رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے امریکہ اور عالمی سطح پر موثر ملک ہے جبکہ اس کے برعکس بعض کا ماننا ہے کہ اسرائیل خطے میں امریکہ کے کھیل کا حصہ ہے اور اس کے متبادل کے طو پر کھیل رہا ہے۔
انہوں نے کہا اسرائیل کا وجود امریکہ سے وابستہ ہے جس کی حمایت کے بغیر اسرائیل باقی نہیں رہ سکتا ہے اسی لئے اسرائیل امریکہ کا فوجی اڈا ہے جس کے لئے امریکہ خطیر بجٹ مختص کرتا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل بحران ایجاد کرتے ہوئے خطے میں اپنا وجود برقرار رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر متقی نے کہا کہ خطے میں امریکی اتحادیوں کے درمیان اسرائیل کو بڑا مقام حاصل ہے۔ امریکی اسناد کے اندر ہی اسرائیل کے لئے متحد اور اتحادی جیسے کلیدی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جبکہ عرب ممالک کے بارے میں شراکت دار جیسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔
پس دونو کے درمیان اسٹرٹیجک تعلقات ہیں۔ اسرائیل خطے میں امریکی پولیس مین ہے۔ امریکہ مختلف صورتوں میں اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔ امریکہ کے اسرائیل کا طاقتور ہونا بہت اہمیت رکھتا ہے البتہ بعض اوقات اسرائیل پر دباو بڑھاتے ہوئے اپنے احسانات بھی یاد دلاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حقیقت میں امریکہ اسرائیلی پالیسیوں کو چلاتا ہے البتہ اپنے لئے خاص اہمیت کا بھی قائل ہے۔ اسرائیل بھی اس حقیقت کو بخوبی جانتا ہے کہ اس کے نہ ہونے سے امریکہ کو بڑا نقصان ہوگا اسی لئے اسرائیل امریکہ کا نافرمان بچہ ہے۔
تہران یونیورسٹی کے استاد نے مزید کہا کہ جوبائیڈن کی حکومت میں امریکہ ایک فوجی مہم جوئی کی ضرورت تھی تاکہ دفاعی بجٹ کو بڑھایا جاسکے اور صنعتی کمپنیوں کو بھی فائدہ ہوجائے۔ اسی لئے اسرائیل نے جنگ میں مزید شدت پیدا کی اس طرح امریکہ ہتھیاروں اور دیگر امور میں اسرائیل کی حمایت بڑھا رہا ہے۔
مباحثے کے دوران لبنان کی قومی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر طلال عتریسی نے کہا کہ طوفان الاقصی سیاسی، دفاعی اور سیکورٹی کے حوالے سے نہایت پیچیدہ آپریشن تھا جس کا مقابلہ کرنے میں اسرائیل اور اس کے حامی مخصوصا امریکہ بری طرح ناکام رہے ہیں۔ اس واقعے نے امریکہ اور اس کے حامیوں کی پریشانی میں اضافہ کردیا ہے۔
اسرائیل کے بارے میں واضح ہوگیا کہ یہ حکومت امریکہ اور اس کے حواریوں کے مفادات کی حفاظت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ طوفان الاقصی نے خطے میں امریکی مفادات کو خطرے میں ڈالنے کے علاوہ مقبوضہ فلسطین میں صہیونی حکومت کے وجود کو بھی متزلزل کردیا ہے۔ اگرچہ حالیہ سالوں میں خطے میں مقاومتی تنظیموں کے طاقتور ہونے سے یہ خطرات موجود تھے لیکن طوفان الاقصی نے موضوع کو مکمل شفاف کردیا دوسرے الفاظ میں طوفان الاقصی صہیونی حکومت کے اندر زلزلہ برپا کردیا ہے جس کے اس کے ستون ہلنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس آپریشن نے واضح کردیا کہ صہیونی اور امریکی فوج اپنے وظایف کی انجام دہی کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیں۔
لبنان کی نیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر نے کہا کہ صیہونی حکومت بنیادی طور پر خطے میں مغرب اور امریکہ کے سیکورٹی اور فوجی مفادات کے تحفظ کے لیے بنائی گئی تھی۔ پچھلی دہائیوں میں یہ حکومت امریکہ کی ایجنٹ کے طور پر اپنے قومی مفادات کے حصول کے لیے خطے کے اصل ممالک اور تحریکوں کے سامنے ڈٹی رہی ہے۔ اس آپریشن نے ظاہر کیا کہ صیہونی حکومت اب مغرب کے لیے یہ کام انجام دینے کے قابل نہیں رہی۔ یقیناً یہ مسئلہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ یہ ناکامی اس حقیقت کا باعث بنی کہ صیہونی حکومت نے نہ صرف ان تحریکوں اور ممالک کو روکا بلکہ امریکہ کے مفادات کے خلاف ان کے اکسانے والے اور متحد حکومتوں، گروہوں اور جماعتوں کے طور پر کام کیا۔
ڈاکٹر عتریسی نے کہا کہ اس کی وجہ سے امریکہ اور مغرب جنہوں نے ہمیشہ صیہونی حکومت کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا، اس بار خطے میں اپنے اتحادی کی براہ راست حمایت کررہے تاکہ یہ حکومت، جسے برقرار رکھنے میں شدید بحران کا سامنا ہے۔ اپنی بقا کو برقرار رکھے۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی کی حمایت کے نام نہاد دعوے کرنے والے امریکہ اور مغرب ممالک صہیونیوں کے جرائم کے سامنے نہ صرف خاموش رہے بلکہ دفاعی اور دیگر شعبوں میں امداد کرتے ہوئے ضروری سامان بھی فراہم کیا۔
ڈاکٹر عتریسی کے مطابق حالیہ دنوں میں صیہونی حکومت کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر جرائم کے ارتکاب کی وجہ سے امریکہ کے لب و لہجے اور محدود موقف میں تبدیلی آسکتی ہے لیکن اس کی طرف صیہونی حکومت کے مفادات کے تحفظ کے لیے ابھی تک عملی طور پر کوشش ہورہی ہے۔ اس سلسلے میں جنگ بندی کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے۔ یہ کہنا ضروری ہے کہ آج جو کچھ ہوا وہ ماضی سے مختلف ہے اور صیہونی حکومت اور امریکہ کا کام مشکل ہوگیا ہے۔
کیونکہ طوفان الاقصی آپریشن اور فلسطینی عوام کی بہادرانہ مزاحمت نے آشکار کردیا ہے کہ مزاحمتی گروہ اپنی طاقت میں اضافہ کر رہے ہیں اور صیہونی حکومت اور امریکہ کے مفادات کے حصول کی راہ می رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ دوسری جانب طوفان الاقصی آپریشن نے ثابت کیا کہ صیہونی حکومت اور امریکہ کے تسلط کو ختم کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی دہائیوں سے جاری کوششیں رنگ لائی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج ہم اچھی طرح اندازہ کرسکتے ہیں کہ صیہونی حکومت اپنے سیاسی، سیکورٹی اور فوجی مفادات کو بچانے میں ناکام ہو چکی ہے۔
طوفان الاقصی کو 40 دن گزرنے کے باوجود کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی اور ملکی سیاست کے میدان میں بھی شدید چیلنجز کا سامنا ہے جبکہ مزاحمتی محاذ ماضی کے مقابلے میں مضبوط ہوئی ہے اور امت مسلمہ پہلے سے زیادہ متحد ہوگئی ہے۔
عالمی رائے عامہ بھی فلسطینیوں کی طرف زیادہ مائل ہو گئی ہے۔ یہ تمام حقائق امریکہ کے لئے باعث تشویش ہیں۔ یوکرائن میں روس کے ساتھ محاذ پر مصروف امریکہ کے لئے فلسطین نیا درد سر بن گیا ہے جس سے امریکی خارجہ پالیسی مشکلات سے دوچار ہوگئی ہے۔ حالیہ واقعات کے بعد مغربی ایشیائی ممالک روس اور چین کے ساتھ تعلقات بڑھائیں گے تاکہ امریکی تسلط کا مقابلہ کرسکیں۔ حقیقت میں اس وقت دنیا میں کئی طاقتیں سر اٹھا رہی ہیں جس میں امریکہ پہلے سے زیادہ تنہا ہوگا اور صہیونی حکومت کے حامی ممالک مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔