شناختی رومال: کوفیہ

[]

محمد فاروق بھٹی

آپ کو یہ ایک سادہ سا رومال نظر آتا ہے لیکن محض ایک رومال کیسے ساری آئیڈیالوجی کا مظہر ہو سکتا ہے، یہ آپ آج کے “حسینیوں” سے سیکھ سکتے ہیں۔ پرامن سفید زمین پر کالے رنگ کی خارداد تاروں یا مچھیروں کے جال کا عکس، کیا خود میں کوئی انقلابی پیغام چھپا سکتا ہے؟

سفید اور کالے رنگ کا ایک حسین امتزاج آپ کو نبی مہرباں ﷺ کے دور کے پرچم میں بھی نظر آتا ہے۔ بدر، احد اور خندق کی غزوات میں سفید اور کالی دھاریوں پر مشتمل اک پرچم ہی مکمل دعوة کا عکس ہوا کرتا تھا۔ تجرباتی طور پر آپ ایک کالی ایک سفید ایک کالی ایک سفید پٹی پر مشتمل ایک سیاسی جماعت کا آج کا پرچم دیکھ لیں۔ چند لوگ بھی اگر ایسے پرچموں کو لیکر چل رہے ہوں تو ہوا کے پھریرے ان کو طلاطم خیز موجوں کی صورت بنا دیتے ہیں۔

جزیرہ نما عرب کی مظلوم ترین قوم جو اپنوں کی غداری کے باوجود آج بھی بیت المقدس کی محبت سے سرشار ہے، اپنے شناختی رومال “کوفیہ” یا “حطہ” کو سگنیچر بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ سفید کپڑے پر مچھیرے کے جال جیسا کالا چیک میٹ دیکھنے میں بہت بھلا لگتا ہے۔

کسی دور میں یہ عرب کسانوں اور مچھیروں کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ 1930 کی مزاحمتی تحریک جو 1936 میں باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کر گئی تھی، میں مفتی اعظم امین الحسینی اور مقامی عرب قبائل نے ملکر برطانوی راج کے خلاف بغاوت کی۔ یہ رومال ان دنوں بھی عربوں کے سروں پر نظر آتا تھا۔ برطانیہ زبردستی “خنجر ریاست” کے قیام کے لئے کوشاں تھا اور مقامی عرب آبادی دنیا بھر سے بھر بھر کر لا کر بسائے جانے والے “اجنبیوں” پر معترض جو انبیاء کی سرزمین میں خنجر گھونپنے آئے تھے۔ ایسے میں دیہاتی مچھیروں کی مزاحمت نے اس عام رومال کو خاص اور ریشمی رومال بنا دیا تھا۔

خیر بات ہو رہی تھی اک رومال کی، جو آج دنیا بھر کے انسان دوست انسانوں کے کندھوں پہ نظر آ رہا ہے۔ آپ کو ایک خاتون پارلیمنٹرین یہ رومال اوڑھے آصٹریلوی پارلیمنٹ میں بچوں اور عورتوں کے قتل عام پر سراپا احتجاج نظر آتی ہے۔ آپ ترکیہ کے رجب طیب اردوان کو کوفیہ میں دیکھ سکتے ہیں. کوفیہ مفلر پہنے سراج الحق استنبول کی سلطان فاتح مسجد میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

دنیا بھر کی ٹیکسٹائیل انڈسٹری آج کوفیہ کی پراڈکش میں مصروف ہے کیونکہ یہ ایک ٹاپ ٹرینڈ ہے۔ لندن ، مانچسٹر ، برمنگھم ، پیرس ، نیویارک ، ہوسٹن ، سڈنی ، واشنگٹن ، کراچی ، لاہور ، اسلام آباد ، ڈھاکہ ، جکارتہ سب جگہ ہزاروں لاکھوں لوگ اسی رومال میں لپٹے نظر آتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ایک چہار رنگا پرچم بھی دکھائی دیتا ہے۔ بیشک یہ رومال نہیں آواز ہے۔

سو فقروں ، ہزار نعروں اور لاکھوں جذبات کی ابلاغی نمائندگی کرتا یہ رومال آج ایک مکمل بیانیہ کا مظہر ہے۔ بیشک برینڈنگ کی دنیا کا یہ شاہکار مارکیٹ ٹرینڈ ہے۔ برصغیر کی ریشمی رومال تحریک بھی یاد آتی ہے جو کم و بیش اسی زمانے کی ایک مہم تھی۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر آپ کے کاندھوں پر یہ رومال یا چہار رنگی پرچم ہے تو آپ انسان دوست ورنہ ۔۔۔ آج کل لاہور میں اسی کوفیہ کی ریل پیل ہے، ہر مارکیٹ میں دکانوں کے باہر یہ رومال لٹکا نظر آئے گا۔ عوام انیس نومبر کے مارچ میں شرکت کو بیقرار ہیں۔
شاباش میرے محسنو! سلامت باشد
٭٭٭



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *