[]
حیدرآباد: بی آر ایس کے کارگزار صدر کے ٹی راما راؤ نے کہا کہ گزشتہ روز کانگریس کی جانب سے جاری کردہ مائنا ریٹی ڈیکلریشن کو بکواس کے ساتھ ساتھ مضحکہ خیز قرار دیا۔
آج تلنگانہ بھون میں اقلیتی قائدین محمد محمود علی، محمد سلیم، مسیح اللہ خان، محمد امتیاز اسحاق و دیگر کے ساتھ کانگریس کے مائنا ریٹی ڈیکلریشن پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کے ٹی راما راؤ نے کہا کہ دستور کے لحاظ سے مسلمان، عیسائی، سکھ، بدھ مت اور جین مت کو اقلیتی طبقہ کا درجہ حاصل ہے۔
کانگریس اگر مسلمانوں کی پسماندہ طبقات کے ساتھ مردم شماری کراتی ہے تو مسلمان اقلیتی درجہ سے محروم ہوجائیں گے۔ اقلیتی اداروں کا وجود ختم ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ پسماندہ طبقات اور مسلمانوں کے درمیان ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس نظریات سے متاثر پردیش کانگریس کے صدر نے بی جے پی کے اشاروں پر اس ڈیکلریشن کو تیار کیا ہے۔ کے ٹی راما راؤ نے کہاکہ جس طرح بی جے پی پسماندہ مسلمان، پسماندہ مسلمان کا راگ الاپتی رہتی ہے، ویسی ہی کوشش کانگریس بھی کررہی ہے جس سے مسلمانوں کو فائدہ تو نہیں ہوگا مگر زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سالانہ بجٹ میں اقلیتوں کیلئے 4000کروڑ روپے مختص کرنے سے متعلق کانگریس کے وعد ہ بغیر سوچے سمجھے کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس لحاظ سے تلنگانہ کی آمدنی اور بجٹ میں اضافہ ہورہا ہے قوی امکان ہے کہ آئندہ بجٹ میں اقلیتوں کے حصہ تقریباً5000کروڑ روپے رہے گا۔
اب اگر کانگریس 4000 کروڑ دینے کا وعدہ کرتی ہے تو یہ اقلیتی طبقات کے ساتھ مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کارگزار صدر بی آر ایس نے کہا کہ 2003-14 تک کانگریس حکومت نے متحدہ آندھرا پردیش میں اقلیتوں کی ترقی کیلئے بجٹ میں سے صرف930 کروڑ روپے خرچ کئے تھے۔ جبکہ 2014-23 تک ریاست تلنگانہ میں بی آر ایس حکومت نے10,140 کروڑ روپے خرچ کئے۔
کے ٹی راما راؤ نے کہا کہ کرناٹک اور راجستھان جہاں کانگریس کی حکومتیں ہیں، اقلیتوں کے لئے بجٹ میں مختص کردہ رقومات بالترتیب 2100 کروڑ اور1900 کروڑ ہے۔ جو کہ کانگریس ان بڑی ریاستوں میں اقلیتوں کیلئے بجٹ میں اضافہ نہیں کررہی ہے اور وہ یہاں تلنگانہ کے مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتی ہے۔
مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتی ہے۔ آئمہ و موذنین کیلئے دس ہزار روپے ماہانہ کا وعدہ کیا گیا جبکہ ہم پہلے ہی سے پانچ،پانچ ہزار روپے دے رہے ہیں اور نئی حکومت میں یہ رقم کو یقینی طور پر دگنا کردیا جائے گا۔12 فیصد تحفظات کی فراہمی کے مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے کے ٹی راما راؤ نے کہا کہ 2017 میں ریاستی اسمبلی نے اقلیتوں کو12 فیصد تحفظات کی فراہمی کیلئے قرار داد منظور کرتے ہوئے مرکز کو روانہ کیا گیا تھا مگر مرکزی حکومت کا اقلیتوں اور تلنگانہ کے ساتھ رویہ آپ کے سامنے ہے۔
ہم نے بارہا کہا کہ مسلمانوں کو تحفظات، مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ معاشی بنیاد پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ2024 میں مرکز میں ایک سیکولر حکومت آئیگی اور اس حکومت میں بی آر ایس کا اہم رول رہے گا۔ اُس وقت ہم اس مسئلہ کا حل دریافت کریں گے۔ کانگریس ڈیکلریشن میں اوور سیز اسکالرشپ اور شادی مبارک جیسی اسکیمات کا ذکر کرتے ہوئے کے ٹی راما راؤ نے کہا کہ ہم بیرونی ممالک میں حصول تعلیم کیلئے20لاکھ کی مالی مدد فراہم کررہے ہیں اور کانگریس صرف5لاکھ روپے دینے کا وعدہ کررہی ہے۔
شادی مبارک کیلئے اب تک 2330 کروڑ روپے جاری کرتے ہوئے 2,70,000 بہنوں کی شادیوں میں مالی مدد دی ہے۔ ہم نے اپنے وعدوں سے زیادہ دیا۔ 205ٹمریز اسکولس، 204 ٹمریز جونیر کالجس قائم کئے گئے اور بی آر ایس کی بھروسہ اسکیم کے تحت اور مزید زیادہ دیا جائے گا۔
انہوں نے کانگریس اور بی جے پی کو ایک ہی سکہ کے دورخ قرار دیتے ہوئے کہا کہ راجہ سنگھ، بنڈی سنجے اور ڈی اروند جیسے فرقہ پرست قائدین کے خلاف کمزور امیدوار ٹہرائے گئے۔ ایسا ان قائدین کی کامیابی کے لئے راہ ہموار کرنے کیلئے دانستہ طور پر کیا گیا اور دوسری طرف اقلیتوں سے برائے نام محبت کا اظہار کیا جارہا ہے۔
کے ٹی راما راؤ نے کہا کہ کانگریس کے پاس کچھ نیا نہیں ہے۔ چونکہ کانگریس بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ اس نے اقلیتوں کو گمراہ کرنے کے خاطر ہاف بیکڈ کیک ادھاپکا ہوا کیک سامنے رکھ دیا۔ انہوں نے اقلیتوں سے کانگریس کی مکاری سمجھتے ہوئے بی آر ایس کا ساتھ دینے کی اپیل کی۔